ایک وقت تھا جب دنیا کے پیشتر علاقوں میں مونچھوں کو مرد کی شان سمجھا جاتا تھا ۔ پنجاب کے بعض علاقوں میںتو آج بھی’’ مُچھ مُنے‘‘ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا یہاں تک کہ اگر شوہر کی مونچھیں نہ ہو ں توبیوی اسے گھرمیں نہیں گھسنے دیتی۔ یہی وجہ ہے کہ یہاںکے مرد اپنی ’’جان‘‘ سے بھی بڑھ کے اپنی مونچھوں کا خیال رکھتے ہیں اور کوئی’’ نائی کا لال‘‘ یا اُس کا ’’ اُستر ا ‘‘ اُن کی مونچھ کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔ یہی وہ ’’مُچھل حضرات‘‘ ہیں جو ’’ مُچھ نہیں تے کچھ نہیں‘‘ جیسی کہاوتوں اور بولیوں پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں مونچھیں کٹوانا ناک کٹوانے کے برابر سمجھا جاتاہے لہذا کسی بھی بُرے وقت میں یہ گردن کٹوانے کو مونچھیں کٹوانے پر ترجیح دیتے ہیں۔ویسے آپس کی بات ہے فی زمانہ بغیر مونچھوں والوں کو دیکھیں تو ’’مُچھ نہیں تے کچھ نہیں‘‘ کی کہاوت میں خاصا وزن محسوس ہوتا ہے۔ مونچھیں رکھنا بچوں کا کھیل نہیں اور شریکے برادری میں انہیں اونچا رکھنے کے لئے بڑے جتن کرنے پڑتے ہیں ۔ہم یہ کہیں گے کہ مونچھیں مرد کی شناخت ہیں جس پر انہیںہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے بھلے مونچھوں کے ساتھ اُن کی شکل اندرون سندھ ڈاکوئوں کے خوفناک سردار یا کسی بِجو جیسی ہی کیوں نہ لگے۔ممکن ہے شہروں میں رہنے والے مونچھوں کی اہمیت اور شریکے برادری میں ان کے بر محل استعمال کو اُس طرح نہ سمجھتے ہوں جس کا اظہار ہمیں جگے جٹ کے حوالے سے اس پنجابی لوک بولی میں ملتا ہے …؎
جگے مُچھ نوں مروڑا دِتا
تے پِنڈ دی پنچایت ٹُٹ گئی
بھلے ہم ڈیل ڈول اورقد بت میں جگے جٹ جیسے گھبرو اور جوان نہ سہی لیکن اپنے ’’پینڈو‘‘ پس منظر کی وجہ سے مونچھیں رکھنا اور پھر انہیں تائو دیتے ہوئے پرہیا پنچایت میں مخالفوں کوکھنگورے مارنے کا ارمان ہمارے دل میں بھی کسی ’’جگے‘‘ سے کم نہیں ہے۔ بس اس کے لئے ہمیں کسی مناسب وقت یا بہانے کا انتظار تھا جو ایک لمبے عرصے بعد آج ہمیں یوں میسر آیا کہ پچھلے دنوں ہم نے فیس بک پر پنجابی اور اردو کی خوبصورت کہانی کار،شاعرہ اور کالم نگار ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ کے کالج دورکی کچھ تصویر یںدیکھیںجس میں ڈاکٹر صاحبہ نے بڑی بھرویںمونچھوں کے ساتھ پنجاب کے روایتی گھبرو کا گیٹ اپ کیا ہواہے ۔ اللہ جانتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ اس روپ میں بھی پوری طرح پھب رہی ہیں اور مونچھیں بھی ڈاکٹر صاحبہ پر اُسی طرح جچ رہی ہیں جیسے اُن پر لپ سٹک یعنی سرخی جچتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحبہ کی خفگی کا ڈر نہ ہوتا تو ہم اُنہیں آزمائشی یا ایڈہاک کی بجائے مستقل بنیاد وںپر مونچھیں رکھنے کا مشورہ ضرور دیتے۔لیکن پھر یہ خیال آیا کہ ہم تو ابھی تک خود کلین شیو ہیں ایسی صورت میں ہوسکتا ہے ڈاکٹر صاحبہ ہمارا مشورہ اُلٹا ہمارے منہ پر مارتے ہوئے ہمیںیہ کہیں’’ باجی! پہلے آپ خود تو مونچھیں رکھ لیں پھر اس کے بعد کسی اور کو مونچھیں رکھنے کامشورہ دیجیے گا‘‘۔سو ہم نے ڈاکٹر صاحبہ کے اس طعنے سے بچنے کے لئے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیرناصرف مونچھیں رکھنے کا فیصلہ کرلیا بلکہ ڈیڑھ دو ماہ ماہ کی لگاتار محنت سے اچھی خاصی مونچھیں رکھ بھی لیں۔گھر کی بات گھر تک رہتی تو ٹھیک تھا ہم سے غضب یہ ہوا کہ ہم نے دوستوں کو سرپرائز دینے کے چکر میںفیس بک پر مونچھوں کے ساتھ اپنی تازہ ترین تصویر اپ لوڈ بھی کر دی۔دوستوں نے ہمارا’’توا‘‘ ہی نہیں اچھا خاصا ’’تندور‘‘ لگایا تھا لیکن ایک دوست کے کمنٹ نے تو جیسے ہماری سوچ ہی بدل دی۔ ہمیں لگا کہ محض مونچھیں رکھ کر انہیں تائو دینا یا اپنی طاقت اور اختیار کے بل بوتے پر مخالفین پر زندگی تنگ کرنا مردانگی نہیں بلکہ جھوٹی اَنا، کدورت اور انتقام جیسی بیمار سوچ کے برعکس تحمل، رواداری اور بُردباری جیسے مثبت رویئے سے ماحول اور معاشرے کو خوبصورت بنانا ا صل مردانگی ہے ۔