سابق صدر ممنون حسین بھی چل بسے۔ سرطان کے مرض میں مبتلا سابق صدر دو ہفتوں سے کراچی کے ایک ہسپتال میں زیر علاج تھے۔ چند روز قبل ان کی طبعیت زیادہ خراب ہوئی اور وہ اکیاسی برس کی عمر میں خالق حقیقی سے جا ملے۔ 23دسمبر انیس سو چالیس کو ہندوستان کے شہر آگرہ میں پیدا ہونے والے ممنون حسین کا خاندان 1947 میں ہجرت کر کے پاکستان آیا۔انہوں نے جامعہ کراچی سے گریجویشن اور انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) سے ماسٹرز کرنے کے بعد ساٹھ کی دہائی میں کاروبار شروع کیا اور بعد عملی سیاست میں آ گئے۔
ممنون حسین کا شمار مسلم لیگ نون کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا تھا۔ وہ پہلے سندھ کے گورنر بنے۔ دو ہزار تیرہ سے دو ہزار اٹھارہ تک صدر پاکستان کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے۔ ہر جانے والا ہمیں پیغام دیتا ہے کہ
کل نفس ذائقہ الموت
سب نے چلے جانا ہے، ہم اللہ کی طرف سے آئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ ہم دنیا کی زندگی میں اتنے مگن ہیں کہ آخرت اور حقیقی زندگی کو ہی بھلائے بیٹھے ہیں۔ موت اٹل حقیقت ہے ہمیں دوسروں کو جاتا دیکھ کر اپنی اصلاح کی طرف توجہ دینی چاہیے اور اس زندگی کے لیے کام کرنا چاہیے جہاں جانے کے بعد ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ آج ہمارے پاس وقت ہے اسے ضائع کرنے کے بجائے اس سے فائدہ اٹھائیں۔ جو چلے گئے ہیں ان کے لیے دعا کریں اور خود ایسے کام کریں کہ ہمارے جانے کے بعد کوئی ہمارے لیے بھی دعا کرے۔
نوید عالم نے ایک متحرک زندگی گذاری۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری اولمپیئن آصف باجوہ کا شمار ان کے قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔ جب تک دونوں ہاکی کھیلتے رہے بہت اچھے دوست رہے لیکن جب کھیلنے کا دور ختم ہوا اس کے بعد کبھی دوست نہیں رہے بلکہ دو ہزار آٹھ میں جب آصف باجوہ پہلی مرتبہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری بنے اس وقت سے لے کر شاید نوید عالم کے انتقال سے چند روز پہلے تک نوید عالم کو پاکستان ہاکی فیڈریشن کا مخالف یا حزب اختلاف کا نمائندہ سمجھا جاتا تھا۔ بعض لوگ انہیں اپوزیشن لیڈر بھی کہتے تھے۔ آصف باجوہ نوید عالم کا بہت اچھا دوست تھا لیکن ساتھ کھیلنے والے زندگی کا اہم اور بڑا حصہ ایک دوسرے کے مخالف بھی رہے۔ نوید عالم پر جب بھی پابندی لگی آصف باجوہ سیکرٹری پاکستان ہاکی فیڈریشن تھے۔ اسے سوچ کا فرق کہیں یا کام کرنے کے انداز کا فرق کہا جائے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک دور ایسا بھی آیا جب دونوں دوست نہیں رہے اور یہ بہت لمبا عرصہ تھا۔ اس دوران ایک مرتبہ شہباز احمد سینئر نے نوید عالم کو اہم ذمہ داری بھی دی۔ وہ جیسے تیسے کچھ نہ کچھ کرتا رہا لیکن آخر میں شہباز احمد اور نوید عالم کے رستے بھی جدا ہو گئے۔ آصف باجوہ دوبارہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل بنے تو نوید عالم کے لیے فیڈریشن کے دروازے ایک مرتبہ پھر بند ہو گئے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے ان پر ایک مرتبہ پھر پابندی لگا دی۔ وہ کھلاڑی جس نے ساری زندگی ہاکی کھیلتے اور کھلاتے گذار دی ہو اس کے لیے کھیل کے میدان سے دور رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اس کی پریشانی کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، ممکن ہے کھیل کے میدان سے دوری یا جگری یار کی مخالفت کا غم نوید عالم کو اندر ہی اندر کھاتا رہا اور وہ غم کینسر کی شکل میں باہر نکلا، بہرحال کچھ بھی کہیں کھیل سے دور رہنے یا کھیل کے لیے اپنی ہمت سے بڑھ کر کچھ کرنے کی لگن یا قومی کھیل میں میرٹ اور آئین کی بالادستی کے لیے جدوجہد کرتے کرتے نوید عالم ایسی بیماری میں مبتلا ہوا جو اسے ہسپتال اور پھر قبرستان تک لے گئی۔
نوید عالم نے لگ بھگ تیرہ چودہ سال تک اپنے قریبی دوست آصف باجوہ کی مخالفت کی لیکن زندگی کے آخری ایام میں دوریاں ختم ہو گئیں، نوید عالم کو بلڈ کینسر کا مرض لاحق ہو چکا تھا اور اس مشکل وقت میں آصف باجوہ دوستی کا حق ادا کرنے یا اقتدار کی دوڑ میں پیدا ہونے والے اختلافات کو اور اس دوران پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ نوید عالم کے علاج کے حوالے سے تمام معاملات آصف باجوہ خود دیکھتے رہے، وفاقی حکومت سے رابطہ کیا، سندھ حکومت کو خط لکھا، پنجاب حکومت سے رابطہ کیا، کئی چیزیں فوری طور پر ہوئیں علاج شروع ہوا لیکن نوید عالم کی زندگی ہی اتنی تھی، اس کی سانسیں ہی اتنی تھیں۔ گرجتے برستے تیزی میں سارے کام کرتے کرتے نوید عالم دنیا سے بھی اسی تیزی سے رخصت ہوا کہ سب کو اداس کر گیا۔ آصف باجوہ کا فون آیا کہنے لگے چودھری صاحب نوید عالم میری مخالفت کرتا تھا میں نے کبھی اس کی مخالفت نہیں کی، وہ ہمیشہ میرا بہت اچھا دوست رہا، مشکل وقت میں بھی جب اس نے کچھ کہا اس کی توقع سے بڑھ کر کوشش کی، بیماری کے
دنوں میں اس کے لیے جو کچھ کیا ہے یہ میرا اور اللہ کا معاملہ ہے لیکن میں اس کے خاندان کو بھی اکیلا نہیں چھوڑوں گا۔ میں جانتا ہوں نوید عالم مجھ سے ناراض نہیں گیا اور اب اس کی فیملی کی خوشیوں کا بھی خیال رکھوں گا۔ یہ میرا فرض ہے اور دوستی کا قرض ہے جو مجھے ادا کرنا ہے۔ نوید عالم کے انتقال نے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ ہر کام جلدی جلدی کرتا تھا دنیا سے بھی جلد چلا گیا ہے۔ اللہ اس کے درجات بلند فرمائے۔ ہم نے بارہ سال اکٹھے ہاکی کھیلی ہے۔ زندگی کا بہترین وقت ساتھ گذارا ہے۔ بعد میں جو کچھ ہوا وہ افسوسناک ضرور ہے لیکن کچھ چیزیں اختیار میں نہیں ہوتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ میر ظفر اللہ خان صاحب مرحوم بھی نہایت شاندار، وضعدار انسان تھے۔ ہمارے سامنے قاضی محب، محمد قاسم، محمد اخلاق، منصور احمد اور اب نوید عالم رخصت ہوئے ہیں۔ یہ ہمارے سوچنے، اپنے خیالات کا جائزہ لینے اور اپنے طرز زندگی پر نظر ثانی کرنے کا وقت ہے۔ کیا ہم ایسے ہی رہیں گے، ہمارے سامنے بہترین کھلاڑی مشکل میں دنیا سے جاتے رہیں اور ہم آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں۔ ہم نے پلیئرز ایسوسی ایشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم خود سالانہ ایک لاکھ روپے عطیہ کریں گے۔ اس تنظیم کا ایک بورڈ ہو گا اور اسے پیشہ وارانہ انداز میں چلائیں گے۔ نوید عالم تو چلا گیا ہے لیکن شاید ہمیں متحد رہنے کا سبق دے گیا ہے۔ اختر رسول چودھری نے بھی فون کر کے بھی دکھ کا اظہار کیا ہے۔ یقیناً ہاکی فیملی کیلئے دکھ کا وقت ہے۔ نوید عالم کو کینسر تو تھا لیکن اس کے ٹھیک ہونے کے امکانات زیادہ تھے اس کی اچانک موت نے سب کو دکھی کیا ہے۔