مون سون کی بارشوں کے آغاز سے ہی ملک میں سیلاب کی تباہ کاریوں کے خدشات لاحق ہو گئے ہیں جس کے لیے ہمارے موذی دشمن بھارت نے بھی پاکستان کی جانب پانی چھوڑنے کی سازشوں کا آغاز کر دیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس وقت دریائے چناب میں چنیوٹ کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور دریا کے کنارے کھڑی فصلیں زیر آب آ گئی ہیں۔ بھارت کی طرف سے اچانک پانی چھوڑے جانے پر پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے اور نشیبی علاقے پانی میں ڈوبنے لگے ہیں چنانچہ دریا کنارے بسنے والے مکینوں نے محفوظ مقامات کی جانب نقل مکانی شروع کر دی ہے۔ اسی طرح نارووال میں بھی موسلادھار بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور برساتی نالہ ڈیک کے قریب آباد کئی دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق آزاد کشمیر کے علاقے وادیٔ نیلم میں طوفانی بارشوں سے 14 گھر تباہ ہو گئے اور 20 گھروں کو جزوی نقصان پہنچا جبکہ میاں بیوی سیلابی ریلوے میں بہہ کر لاپتہ ہو گئے ، دوسری جانب پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں دوسرے روز بھی بارش کا سلسلہ جاری رہا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں بشمول فیصل آباد ، سیالکوٹ ، ساہیوال ، گوجرانوالہ ، گجرات ، راولپنڈی میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہے گا جس سے سیلابی پانی کے ریلے نشیبی علاقوں میں داخل ہو کر جانی اور مالی نقصان پہنچا سکتے ہیں ، گزشتہ روز ہنزہ کی وادی شمشال میں آسمانی بجلی گرنے سے پہاڑی تودہ گر گیا جس سے دریائے شمشال کا بہائو رک گیا اور وادیٔ شمشال کا شہر اور دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ قدرت کے نظام کے تحت ہی اس کرۂ ارض پر کہیں ہلکی اور تیز بارشوں اور کہیں خشک سالی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ ہمارے خطے میں مون سون کی بارشیں مخصوص موسم میں شروع ہوتی ہیں جو وقفے وقفے سے کئی روز اور ہفتوں تک جاری رہتی ہیں۔ چنانچہ ان بارشوں سے پیدا ہونے والی سیلابی کیفیت سے بچنے کے لیے بروقت اور ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے قبل از وقت بارشوں کی پیش گوئی کر دی جاتی ہے۔ اسی طرح آبی ماہرین کو بھی دریائوں میں سیلابی کیفیت کا پیشگی اندازہ ہو جاتا ہے۔ جس سے عوام اور متعلقہ اداروں کو آگاہ بھی کر دیا جاتا ہے تاکہ سیلاب کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کی پیش بندی کر لی جائے، تاہم ہماری سلامتی کے شروع دن سے درپے بھارت کے اپنے عزائم ہیں جو مون سون کی بارشوں سے اپنے دریائوں کے پونڈز اور نشیبی علاقوں میں جمع ہونے والا پانی بغیر کسی اطلاع کے پاکستان کی جانب چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبونے کی سازش کرتا ہے۔ بے شک دونوں ممالک کے مابین باضابطہ معاہدہ بھی ہو چکا ہے جس کے تحت اپنے اپنے ٹیلی میٹری سسٹم کی بنیاد پر دریائوں میں پانی کے بہائو کی ایک دوسرے کو اطلاع دینا لازمی ہوتا ہے مگر بھارت نے شملہ معاہدے کی طرح اس معاہدے کی بھی کبھی پرواہ نہیں کی اور جب مون سون کی بارشوں کا سلسلہ تیز ہوتا ہے جس سے پاکستان کے اندر دریائوں کی سطح آب بلند ہوتے ہوتے سیلاب پر منتج ہونے لگتی ہے تو بھارت اپنے ذہنی فتور کی بنیاد پر پاکستان آنے والے دریائوں میں اچانک پانی چھوڑ کر سیلاب کی شدت بڑھا دیتا ہے ۔ چنانچہ ان بھارتی سازشوں کے نتیجہ میں ہی تقریباً ہر سال ہمیں سیلاب کی تباہ کاریاں بھگتنا پڑتی ہیں۔ اس وقت بھی بھارت پاکستان کی جانب سیلابی پانی چھوڑ کر اسے ڈبونے کی سازشوں میں مگن ہے جبکہ ہماری جانب سے اس بھارتی سازش سے عہدہ براء ہونے کی کوئی ٹھوس منصوبہ بندی اب تک کی جاتی نظر نہیں آ رہی۔ ابھی دریائے چناب میں سیلاب کی کیفیت پیدا ہوئی ہے جس سے پنجاب کے بڑے حصے کی دھرتی سیراب ہوتی ہے مگر یہ دریا سیلاب کی نوبت لاتا ہے تو نقدآور فصلوں کی شکل میں پنجاب کی سونا اگلتی دھرتی سیلاب میں ڈوب کر لوگوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیتی ہے۔
اگر سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان اپنے حصے کے دریائوں پر مطلوبہ ڈیمز تعمیر کر لیتا اور اسی طرح نہروں ، راجباہوں پر بھی پن بجلی کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جاتا تو اس سے ایک تو ہمیں وافر مقدار میں اور سستی ہائیڈل بجلی دستیاب ہوتی جس کے باعث ملک میں کبھی توانائی کے بحران کی نوبت ہی نہ آتی اور دوسرے ان ڈیمز کے پونڈز میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کے باعث سیلابی پانی کے بہائو کی شدت بھی کم ہو جاتی اور ہمارے نشیبی علاقے بھی سیلاب میں ڈوبنے سے بچ جاتے۔ بھارت کو پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی سہولت موجود نہ ہونے سے ہی اسے سیلاب میں ڈبونے کی سازشیں بروئے کار لانے کا موقع ملتا ہے چنانچہ وہ ہر سال مون مون کے دوران ایسے مواقع سے فائدہ اٹھاتا ہے جبکہ بھارت نے ہی کالا باغ ڈیم کو اپنے پٹھو سیاستدانوں کے ذریعے متنازعہ بنا کر اس کی تعمیر عملاً ناممکن بنائی ہے جس کے نقصانات بہرحال ملک اور قوم کو اٹھانا پڑ رہے ہیں۔
پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی اسی سازش کے تحت بھارت نے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا اور کشمیریوں کو یو این سلامتی کونسل سے حق رائے دہی ملنے کے باوجود اس پر اب تک اپنا غیر قانونی تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔ گزشتہ 709 روز سے وادیٔ کشمیر کو بھارتی فوجوں نے محصور کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود کشمیری عوام نے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے یوم شہدائے کشمیر بھارتی سنگینوں کے سامنے ڈٹ کر جرأت و بہادری سے منایا اور اقوام عالم کے سامنے بھارتی مظالم اجاگر کئے۔ کشمیر کو متنازعہ بنانے کی بھارتی سازش درحقیقت پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش ہے اور اس سازش کے تحت ہی اسے کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریائوں کا پانی روکنے اور مون سون کے دوران پاکستان کی جانب پانی چھوڑ کر اسے سیلاب میں ڈبونے کی سہولت ملی ہے جو ڈیمز کی تعمیر سے غافل ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ محکموں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس تناظر میں آج ہمیں جہاں سیلاب کے ممکنہ نقصانات سے بچنے کے ٹھوس اقدامات بروئے کار لانے کی ضرورت ہے وہیں ہمیں اپنے دریائوں پر تمام مطلوبہ ڈیمز کی تعمیر کا بھی ملک کی بقاء و استحکام کے جذبے کے ساتھ عزم باندھنا ہو گا جو ہماری ضرورت بھی ہیں اور بھارتی سازشوں کا موثر توڑ بھی۔
پاکستان کو سیلاب میں ڈبونے کی بھارتی سازشوں کا آغاز
Jul 15, 2021