سی پیک: مشترکہ تعاون کمیٹی کا دسواں اجلاس

 16 جولائی کو جے سی سی کا اجلاس ہونے جا رہا ہے ڈیڑھ سال کے وقفے سے ہونیوالا اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں سی پیک کے دوسرے مرحلے کیلئے مزید منصوبوں کی منظوری دی جائیگی۔ وزیراعظم کا حالیہ دورہ گوادر اور بجٹ اجلاس میں سی پیک منصوبوں کیلئے 87 ملین روپے ظاہر کرتا ہے کہ سی پیک موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔سی پیک چین کے بین الاقوامی منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا پائلٹ پروجیکٹ ہے جو چین میں سنکیانگ کے شہر کاشغر سے شروع ہوکر خنجراب پاس اور متعدد دیگر علاقوں کے راستے پاکستان کے جنوبی ساحلی شہروں کراچی اور گوادر تک پہنچتا ہے یہ معاشی اور ترقیاتی منصوبہ، چین اور پاکستان تعلقات کومستحکم کرنے اور دوستانہ تعاون کو فروغ دینے کیلئے دونوں ممالک کی مشترکہ منزل مقصود ہے۔ سی پیک کے تحت 10 مشترکہ ورکنگ گروپس میں منصوبہ بندی ، توانائی ، ٹرانسپورٹ (انفراسٹرکچر) ، گوادر ، صنعتی تعاون ، سکیورٹی ، بین الاقوامی تعاون ، سماجی اور معاشی ترقی ، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ مشترکہ تعاون کمیٹی میٹنگ سی پیک کا سب سے بڑا اور اہم فورم ہے جس کی صدارت پاکستان کی طرف سے وفاقی منصوبہ بندی اور چین کی طرف سے نائب صدر قومی ترقی اور اصلاحی کمیشن مشترکہ طور پر کرینگے۔ اس میٹنگ میں مشترکہ ورکنگ گروپس (جے ڈبلیو جی) کی سفارشات پر گزشتہ سال کی کارگردگی اور آنے والے سال کیلئے منصوبہ بندی کی جائیگی۔ اب تک سی پیک کی 9 مشترکہ تعاون کمیٹی (جیسی سی) میٹنگز ہو چکی ہیں۔ جبکہ 10 ویں میٹنگ 16 جولائی بروز جمعہ ہورہی ہے۔ سی پیک منصوبہ نے 9 ویں جے سی سی کے بعد غیر معمولی پیشرفت کی ہے۔ انفرا سٹرکچر کے منصوبوں میں سے بیشتر منصوبے کورونا جیسی وبائی مرض کے باوجود کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچے، جس میں اورنج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ ،ملتان سکھر موٹر وے فیز ٹو جو کہ 392 کلومیٹر لمباہے اور اسکے علاوہ شاہراہ قراقرم پر حویلیاں سے تھاکوٹ جس کی لمبائی120 کلومیٹر ، شامل ہیں۔ مزید یہ کہ گوادر بندرگاہ کو مکران کوسٹل ہائی وے سے جوڑنے کیلئے ایسٹ بے ایکسپریس وے جو 19 کلو میٹر لمبائی پر مشتمل ہے تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ 1.7 کلومیٹر لمبا بریک واٹر بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔ مغربی روٹ پر متعدد دوسرے منصوبے شروع کیے گئے جس میں (ایم ایٹ) موٹر وے ہوشاب آواران سیکشن جس کی لمبائی 146 کلو میٹر ہے اور 230 ملین امریکی ڈالر مالیت کا نیو گوادر انٹر نیشنل ایئرپورٹ کا منصوبہ چین کی طرف سے تحفہ ہے جس کا سنگ بنیاد مارچ 2019 میں وزیر اعظم نے رکھا تھا اس پر کافی کام ہو چکا ہے۔
سکھر تا حیدرآباد موٹر وے (ایم سکس )کی تعمیر چند ماہ میں شروع ہونے جارہی ہے۔ توانائی کے بحران سے نمٹنے میں سی پیک منصوبوں کا بڑا اور اہم کردار ہے یہ منصوبے قومی گرڈ میں تقریباً 17،045 میگاواٹ کا اضافہ کرینگے۔ توانائی کے منصوبوں میں سے 5،320 میگاواٹ کے 9منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔اسی طرح سے بلوچستان میں بھی توانائی کا 320 ,1میگاواٹ چائنا- حب کول پاور منصوبہ سی پیک کے تحت توانائی کے مکمل ہونیوالے منصوبوں میں شامل ہے۔ سی پیک کے تحت توانائی کے زیر تعمیر منصوبوں میں 470 ,4 میگاواٹ کے 8 منصوبے شامل ہے جن میں گوادر میں 300 میگاواٹ کا منصوبہ بھی شامل ہے۔ گوادر پورٹ مکمل طور پر آپریشنل ہو چکا ہے۔ گوادر فری زون کا پہلا مرحلہ مکمل ہوگیا ہے جس میں 43 سرمایہ کاروں نے صنعت لگانا شروع کر دی ہے۔12 فیکٹریاں زیر تعمیر ہیں اور 3 فیکٹریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ فری زون کے پہلے مرحلے میں 1200 افراد کو مستقل روزگار ملا ہے۔ وزیراعظم پاکستان نے گوادر فری زون کے دوسرے مرحلے کا 5 جولائی کو سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جو کہ 2200 ایکڑ پر مشتمل ہے۔ اس فری زون کی تعمیر سے ہزاروں مقامی اور دوسرے افراد کو روزگار ملے گا۔گوادر میں عوام کی فلا ح بہبود کے منصوبوں کو بھی ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے، پاک چین دوستی ہسپتال بھی ان منصوبوں میں سے ایک ہے۔ گوادر میں پاک چین ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسٹیٹیوٹ کی تعمیر بھی تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ اسکے علاوہ پینے کے صاف پانی کا ایک منصوبہ 1.2 (ایم جی ڈی) واٹر صاف کرنے کا پلانٹ پر بھی کام ہو رہا ہے۔ گوادر کے سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان کو حتمی شکل دے دی گئی اور اسکی منظوری بھی مل گئی ہے جلد ہی اس منصوبے پر کام شروع ہونے جا رہا ہے۔ گوادر میں چینی ترقیاتی شعبے کی مد میں جدید ترین ہسپتال ، سکول ، رہائش اور ٹیلی مواصلات کے نیٹ ورک بنارہے ہیں۔ موٹر ویز کے ذریعے گوادر کو پورے ملک سے جوڑ دیا گیا ہے۔
سپیشل اکنامک زونز سی پیک منصوبے کا مرکزی پروگرام ہے۔پاکستان میں 9 سپیشل اکنامک زون قائم کیے جائینگے جن میں فیصل آباد میں علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی خیبر پختونخوا میں رشکئی پہ سپیشل اکنامک زونز تیزی سے تعمیر کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔ سندھ میں ڈابھے جی جو ایک بڑا سپیشل اکنامک زون ہے وہ بھی تیاری کے مراحل میں ہے۔اسی طرح بلوچستان میں کوئٹہ کے قریب بوستان صنعتی یونٹ قائم ہو رہا ہے۔نئے منصوبے شروع کرنے پر بھی غوروفکر جاری ہے اس لئے دونوں ممالک کے مابین طے شدہ منصوبوں کے علاوہ دیگر راہیں بھی کھولی جارہی ہیں جن میں زراعت ، سائنس اور ٹیکنالوجی اور سیاحت جیسے طویل مدتی منصوبے شا مل ہیں۔ زراعت پاکستان کی بقا اور نشوونما کیلئے ناگزیر ہے اور اب سی پیک کے تحت ، چین کے تعاون سے ہمارے موجودہ زرعی نظام میں بہتری آئیگی۔ زراعت میں چین کو مکمل طور پر شامل کرنے کیلئے، جوائنٹ ورکنگ گروپ بھی بن چکا ہے اور ایک ایکشن پلان تیار کیا گیا ہے اس منصوبے کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے سے نہ صرف زراعت بلکہ اس سے منسلک مختلف صنعتوں کیلئے لامحدود معاشی و اقتصادی فوائد حاصل ہونگے۔ پاکستان اور چین کے ماہرین کے مابین علم اور صنعت کی تکنیک کا مکمل تبادلہ بھی ایکشن پلان کا ایک اہم حصہ ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہم آہنگی پیدا کی جائے اور ایک دوسرے کی زرعی آب و ہوا اور حالات کا مطالعہ کرنے کے بعد زیادہ تکنیکی معلومات حاصل کی جائیں جس سے بیجوں کی تصدیق ، نگرانی اور مصنوعات کے معیار کو بہتر کرنے میں آسانی ہو گی۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) قائم کیا گیا ہے اور مختلف تجاویز چائنہ کے ساتھ مشاورت کے مختلف مراحل میں ہیں۔ سی پیک بے شک ایک ایسا منصوبہ ہے جس سے ملک کا مستقبل جڑا ہوا ہے اور چھوٹے بڑے مختلف منصوبوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے عوام کیلئے اس میں ملازمت اور کاروبار کے بہت ذیادہ مواقع موجود ہیں۔ ایک اندازے کیمطابق اب تک ایک لاکھ افراد کو روزگار مل چکا ہے اور لگ بھگ 20 لاکھ گھرانے ان منصوبوں سے مستفید ہوئے ہیں۔مس قبل میں لاکھوں افراد کو ملازمت کے مواقع ملیں گے جیسے کہ ریلوے کا سٹریٹجک منصوبہ مین لائن ون پشاور سے کراچی بہت اہم ہے یہ اینکر پروجیکٹ کا کام کریگا جو پاکستان میں لاجسٹک انڈسٹری کو مزید ترقی دیگا۔ یہ منصوبہ 9 سالوں میں مکمل ہو گا اور اندازے کیمطابق 150,000 نوکریاں پیدا ہونگیں۔سی پیک سے متعلقہ تمام منصوبوں پر طے شدہ منصوبہ بندی کے مطابق کام ہو رہا ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ جہاں کرونا وائرس کی وجہ دنیا میں سب کچھ تھم سا گیا تھا اس کے باوجود سی پیک سے متعلقہ منصوبے کو رکنے نہیں دیا گیا۔ اب دوسرا مرحلہ شروع ہو گیا ہے اس مرحلے میں صنعتی تعاون سے متعلق بہتر منصوبوں اور زراعت کو فروغ دینے والے منصوبوں کی وجہ سے پہلے مرحلے سے بھی زیادہ وسیع تر اور نمایاں اثرات مرتب ہوں گے۔ دیکھا جائے تو ہر شعبہ زندگی کسی نہ کسی طرح سی پیک سے منسلک ہے اس لئے اگر کہا جائے کہ ‘‘سی پیک سب کیلئے ’’ تو اس منصوبے کے وژن کی بہتر عکاسی ہو سکے گی۔ یہ ایک خالص ترقیاتی منصوبہ ہے جو نہ صرف چین اور پاکستان تک محدود ہے بلکہ پورے خطے کیلئے ترقی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔ اس لئے پاکستان اور چین دونوں ہی سی پیک کے تمام منصوبوں کو وقت پر مکمل کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن