بھارت اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کے سلسلے میں ناکام و نامراد ہوگیا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے اس موقف نے فیصلہ کن کردار ادا کیا جس میں پاکستان نے یہ بات ثابت کی کہ بھارت نے ہمیشہ سکیورٹی کونسل کی قرار دوں کی خلاف ورزی کی۔ بھارت کو مستقل رکن بننے کے لیے 129ارکان کی حمایت درکار تھی جبکہ اسے اس سے آدھے ارکان کی حمایت بھی حاصل نہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں پاکستان کے موقف کو عرب لیگ اور افریقی یونین کی حمایت بھی حاصل رہی۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کے لیے کی جانے والی کوششیں پہلے ہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں، وہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کر کے مزید بگاڑ پیدا کرنے کی کوشش کرتا۔ اس کا ایک بیّن ثبوت یہ بھی ہے کہ گزشتہ برس اگست کے مہینے میں جب بھارت کو سلامتی کونسل کی ماہانہ صدارت ملی تھی تو اس نے پاکستان کے خلاف کھل کر اپنے تعصب کا اظہار کیا تھا اور افغانستان کے مسئلے پر بات کرنے کے لیے بلائے گئے اجلاس میں پاکستان کو دعوت نہ دے کر یہ ثابت کیا تھا کہ اس سے کبھی بھی غیر جانبداری کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ بھارت کے سیکولر ملک ہونے کا دعویٰ بھی جھوٹ پر مبنی ہے اور وہاں بالعموم تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسند مودی سرکار کی آشیرباد سے جو غیر انسانی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں اس سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ شدت پسندوں ایک گڑھ ہے جہاں اقلیتیں محفوظ و مامون نہیں ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ظلم و بربریت پر مبنی کارروائیاں بھی یہ بتاتی ہیں کہ بھارت خود کو کسی بین الاقوامی قاعدے ضابطے کا پابند نہیں سمجھتا اور وہ اقوامِ متحدہ جیسے عالمی ادارے کی قراردادوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا۔ اس سب کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو بھارت کو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت نہ ملنا ایک ایسا امر ہے جو پورے خطے کے لیے نیک شگون ہے۔