پاکستان اور بیرون پاکستان ، اپنی طرز کے منفرد شاعر اور دانشور حضرت قتیل ؔشفائی کے چاہنے والوں نے اُن کی 21 ویں برسی منائی۔ قتیل صاحب ایک بھرپور زندگی گزار کر 11 جولائی 2001ء کو خالق حقیقی سے جا ملے تھے ۔ معزز قارئین !۔ اُس روز مَیں ’’ آگرہ سربراہی کانفرنس‘‘ میں شرکت کے لئے صدر پاکستان ،جنرل پرویز مشرف میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے دہلی میں تھا ، جب ، اُن کے ساتھ وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات سیّد انور محمود اور حکومت ِ پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسرچودھری اشفاق احمد گوندل قتیل شفائی کی اچانک موت پر افسوس کا اظہار کر رہے تھے ۔
مَیں وطن واپس آیا تو ،21 جولائی 2001ء کے کالم میں مَیں نے اپنے قارئین سے جنابِ قتیل شفائی سے اپنا تعلق بیان کرتے ہُوئے لکھا تھا کہ ’’ میرا قتیل صاحب سے محبت کا گہرا رشتہ تھا ۔ جناب قتیل شفائی سے میری پہلی ملاقات 1965ء میں سرگودھا کے ایک مشاعرہ میں ہُوئی تھی۔ بعد ازاں مَیں نے 1971ء میں لاہور سے ’’نیم سیاسی اور نیم ادبی ‘‘ ہفت روزہ ’’ پنجاب‘‘ جاری کِیا ۔ ’’پنجاب‘‘ کا دفتر کوپر روڈ پر تھااور اُس سے کچھ فاصلے پر قتیل شفائی صاحب ’’پاکستان رائٹرز گلڈ ‘‘ (مغربی پاکستان) کے سیکرٹری کی حیثیت سے رونق افروز ہوتے تھے ، پھر میری اُن کی محبت بڑھتی گئی، ہمارا ایک دوسرے کے دفتر آنا جانا ہوتا گیا۔ اکثر قتیل صاحب اور اُن کے دوست رحیم گل اور مَیں میرے دفتر میں ایک دوسرے کے ساتھ دوپہر مناتے ، پھر ہفت روزہ ’’ پنجاب‘‘ میں ’’ آدھا کالم قتیل شفائی کا ‘‘ کے عنوان سے اُن کا ادبی اور فکاہی کالم شائع ہونے لگا ۔
11 جولائی 1973ء کو میرا روزنامہ ’’ سیاست ‘‘ لاہور سے جاری ہُوا ، پھر مَیں اور قتیل شفائی صاحب اپنی اپنی زندگی کی دوڑ میں ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے، پھر اچانک ، اکتوبر 1984ء میں 1981ء سے میرے دوست اور 2013ء سے جنابِ مجید نظامی کے نامزد ،برطانیہ میں ’’نظریہ پاکستان فورم‘‘ کے چیئرمین ’’بابائے گلاسگو ‘‘ (اور پھر ’’ بابائے امن‘‘ ) ملک غلام ربانی کے بیٹے عرفان ربانی کی شادی لاہور میں میاں محمد سعید (ڈیرے والے ) کی بھانجی ثمینہ سے ہُوئی۔ لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں میری اور قتیل شفائی صاحب کی ملاقات ہُوئی ، پھر ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا۔ پھر گلاسگو میں بھی میری قتیل شفائی صاحب سے کئی بار ملاقات ہوئی۔
دراصل قتیل شفائی صاحب کے دو بیٹے پرویز قتیل ، نوید قتیل اور ایک شادی شدہ بیٹی مُسرت بھی گلاسگو میں ’’مقیم ‘‘تھے ۔ مُسرت بی بی کے شوہر (رونق ِ محفل ) شوکت بٹ کا 4 سال پہلے انتقال ہو چکا ہے ۔ قتیل شفائی ’’سیلف میڈ‘‘ تھے ، اُن کے والد فیروز خان لاکھوں روپے چھوڑ کر اللہ کو پیارے ہُوئے جو ، اُن کے رشتہ داروں نے اُن کی والدہ سے ہتھیا لئے تھے ‘‘ ۔ قتیل صاحب کی عمر اُس وقت صِرف 16 سال تھی ۔ قتیل صاحب نے عملی زندگی کا آغاز ہری پور ہزارہ میں میونسپل کمیٹی کے محرّر کے طور پر کِیا ۔ وہ 24 دسمبر 1919ء کو ہری پور ہزارہ ہی میں پیدا ہُوئے تھے ۔ ان کے بزرگ اکوڑہ خٹک سے ہری پور آئے تھے ۔
اورنگ زیب ؔخان ۔ قتیل صاحب کا اصل نام تھا ۔ ’’ قتیل صاحب نے بتایا تھاکہ ’’ قتیل حضرت عیسیٰ کا صفاتی نام ہے ۔ وہ شفا بھی دیتے تھے ، جب مَیں محرم میں مجلسوں میں نوحے پڑھتا تھا تو وہاں ’’ قتیل فرات‘‘ کی اصطلاح بہت استعمال ہوتی تھی، چنانچہ مَیں نے قتیل ؔتخلص رکھ لِیا اور مَیں اُستاد حکیم یحییٰ شفا خان پوری کی نسبت سے ’’قتیل شفائی‘‘ ہوگیا ۔ پھر مولانا شوکت علی ، مولانا حامد بد ایوانی اور نواب بہادر یار جنگ کی تقریریں ہوتیں ۔ قیام پاکستان کے بعد مسلم لیگیوں کی لوٹ مار سے قتیل صاحب بے حد دُکھی ہُوئے اور مسلم لیگ سے ہمیشہ کے لئے تعلق ختم کرلِیا۔
قتیل صاحب کو حکومت پاکستان سے تمغہ حسن کارکردگی ملا لیکن، اُن کا پہلا اعزاز یہ تھا کہ ’’ اُنہوں نے پاکستان میں بننے والی پہلی فلم’’ تیری یاد‘‘ میں گیت لکھے ، پھر اُنہوں نے 250 سے زیادہ پاکستانی اور بھارتی فلموں کے گانے لکھے۔ بھارتی فلموں کے گیت لکھنے کا جواز پیش کرتے ہُوئے قتیل صاحب کہا کرتے تھے کہ ’’ مَیں پاکستان کا نام روشن کرنے کے لئے بھارتی فلموں کے گیت لکھتا ہُوں ۔ وہ میری اہمیت اور میری وساطت سے پاکستان کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور اگر وہاں میری کمائی کا ذریعہ بنتا ہے تو زرمبادلہ پاکستان ہی میں آتا ہے ۔’’چیریٹی فنڈ‘‘میں تو نہیں چلا جاتا ؟ ‘‘۔ قتیل صاحب کی 20 کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور یہ سب کی سب ان کے فلم لائن میں آنے کے بعد شائع ہُوئیں ، وہ کہا کرتے تھے کہ ’’ یہ کمال ہے میرا کہ مَیں نے ہمیشہ ادب کو اہمیت دِی ہے ، جبکہ مجروح سُلطان پوری ، ساحر لدھیانوی، شکیل بدایونی ، جاں نثار اختر اور دوسرے فلمی شاعر فلمی دنیا ہی کے ہو کر رہ گئے تھے ۔ مَیں فلمی شاعری کے بجائے ادبی شاعری کو اہمیت دیتا ہُوں‘‘۔ قتیل صاحب علامہ اقبال سے بہت متاثر ہُوئے اور پھر احمد ندیم قاسمی صاحب سے ۔ اُنہوں نے بتایا تھا کہ ’’ جب مَیں لاہور آیا تو زندگی میں نئے تجربات آئے اور نئے رنگ، جب مَیں نے اپنے تجربوں میں شاعری کی تو میرا الگ رنگ بنتا گیا ‘ ‘۔ قتیل صاحب کا منفرد رنگ ہی ان کی شہرت اور عزت کا باعث بنا۔
مارچ 2000ء میں اُن کا شعری مجموعہ ’’گفتگو‘‘ ساتویں بار شائع ہُواتواپنے پروگرام کے مطابق وہ اسلام آباد تشریف لائے ، انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن ( حال ہی میں ریٹائر ہونے والے چیئرمین پیمرا) پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ اُنہیں میرے گھر لے آئے اور مَیں نے کئی دوستوں کو مدعو کرلِیا تھا۔ قتیل شفائی صاحب نے مجھے اپنے دستخطوں سے ’’گفتگو‘‘ کے ایک نسخے سے نوازا اور اُس پر لکھا تھا کہ ’’ پیارے اثر چوہان کے لئے ، محبت کے ساتھ۔ قتیل شفائی ‘‘۔ پھر مجھے معلوم ہُوا کہ ’’پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ کی تو ، بہت پہلے ہی قتیل صاحب سے نیاز مندی ( دوستی ) ہے‘‘ ۔ ایک دِن پروفیسر مرزا محمد سلیم بیگ ، قتیل صاحب کو اور مجھے اپنے ساتھ مری کے سیر سپاٹے پر بھی لے گئے تھے ۔ قتیل شفائی ایک کامیاب زندگی گزار کر اِس دارفانی سے عالم جاودانی کو سُدھار گئے ہیں ، لیکن انشاء اللہ اپنی شاعری کے ذریعے ’’اپنے لاکھوں چاہنے والوں سے ’’گفتگو‘‘ کرتے رہیں گے ، جب تک سورج چاند رہے گا ‘ ‘۔