شیخ عبدالقادر جیلانی
مرتبہ: مولانا عاشق الٰہی میرٹھی
صاحب ایمان بھائی کی نصیحت:
اہل اللہ کے قلوب صاف ہوتے ہیں، پاک ہوتے ہیں، مخلوق کو بھول جانے والے اللہ کو یاد رکھنے والے، دنیا کو بھول جانے والے آخرت کو یاد رکھنے والے، اس ناپائیدار کو بھول جانے والے ہیں جو تمہارے پاس ہے، اس پائیدار کو یاد رکھنے والے جو اللہ کے پاس ہے تم ناواقف ہو ان سے، ان کیفیات سے جن میں وہ مشغول ہیں تم اپنی دنیا میں آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو، اپنے رب عزوجل سے حیا کرو، بے شرم ہوئے ہو، اس کے بارے میں اپنے صاحب ایمان بھائی کی نصیحت قبول کر اور اس کی مخالفت نہ کر کہ وہ تیری اس حالت کو دیکھتا ہے جو تو خود اپنی نہیں دیکھ سکتا، اور اسی لیے فرمایا ہے جناب رسول اللہؐ نے:
’’المومن مراۃ المومن‘‘:
کہ مومن آئینہ ہے مومن کے لئے(کہ اس کی واقعی حالت جانچ لیتا ہے)۔مومن ہمیشہ اپنے مومن بھائی کا سچا خیر خواہ ہوتا ہے، اس سے بیان کر دیتا ہے جو کچھ اس سے پوشیدہ رہتا ہے، اس کے لئے نیکو کاروں کو ہدکاروں سے جدا کر دیتا اور اس کی پہچان کرا دیتا ہے نافع اور مصر کی پاک ذات ہے جس نے میرے قلب میں مخلوق کی خیر خواہی کا مضمون ڈالا اور اس کو میرا مقصود اعظم بنا دیا، میں خیر خواہ ہوں اور اس پر معاوضہ نہیں چاہا، میری آخرت مجھ کو مل چکی ہے میرے رب کے پاس، میں دنیا کا طالب نہیں ہوں، میں نہ بندہ ہوں دنیا کا، نہ بندہ ہوں آخرت کا، اور نہ ماسوی اللہ کا، میں بندہ ہوں صرف خالق کا جو یکتا، یگانہ اور قدیم ہے تمہاری فلاح میں میری خوشی ہے، اور تمہاری ہلاکت میں میرا غم، جب میں سچے مرید کا منہ دیکھتا ہوں جس نے میرے ہاتھ پر فلاح حاصل کی تو سیر ہو جاتا ہوں، صاحب لباس ہو جاتا ہوں اور مسرور ہو جاتا ہوں کہ اس جیسا شخص میرے ہاتھ سے کس طرح نکل آیا۔
صاحب زادہ! تو ہی میری مراد ہے میں خود نہیں ہوں، اگر تیری حالت میں تغیر آئے اور میں بدستور رہوں تو رو پڑتا ہوں، اور میں اپنے آپ کوجو محبوب سمجھتا ہوں تو صرف تیری ہی وجہ سے، پس میرے ساتھ علاقہ رکھ کہ جلد عبور کر سکے۔
صاحبو! چھوڑ دو تکبر کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوق پر، اپنی حقیقت کو پہچانو اور تواضع کرو اپنے نفسوں میں تمہاری ابتداء ایک نطفے سے ہے جس سے گھن آئے، ذلیل پانی(یعنی منی) ہے اور تمہاری انتہاء مردار ہے جس کو پھینک دیا جائے گا ان میں سے مت بنو جن کو حرص کھینچے لئے جاتی ہے، خواہش ان کا شکار کرتی اور ان کو ذلت و خواری کے ساتھ لادے ہوئے پھرتی ہے، بادشاہوں کے دروازوں پر کہ ان سے ایسی شے طلب کر میں جوان کی تقدیر میں نہیں، یا ایسی چیز مانگیں جو ان کے نصیب میں لکھی جا چکی ہے، جناب رسول اللہؐ سے روایت ہے، آپؐ نے فرمایا کہ:
اللہ کا سخت ترین عذاب بندے کے لئے یہ ہے کہ وہ مانگتا پھرے ایسی چیز جو اس کی قسمت میں نہ ہو۔ تجھ پر افسوس اے تقدیر اور مقسوم سے ناواقف! کیا تیرا یہ گمان ہے کہ اہل دنیا تجھ کو اس چیز کے دینے کی قدرت رکھتے ہیں جو تیرے مقسوم میں نہیں ہے، یہ شیطانی وسوسہ ہے جو تیرے قلب اور دماغ میں ٹھہر گیا ہے، تو اللہ عزوجل کا بندہ نہیں، تو بندہ ہے اپنے نفس کا، اپنی خواہش کا، اپنے شیطان کا، اپنی طبیعت کا، اپنے وہم کا، اور اپنی دنیا کا، کوشش کر کہ کسی فلاح پانے والے کو دیکھے تاکہ تو بھی اس طریقے سے فلاح پائے۔ بعض صوفیہ سے منقول ہے کہ جس نے فلاح پانے والے کو نہ دیکھا، اس کو فلاح نہ ملی۔ لیکن تو اس کو دیکھے گا اپنے چہرے کی آنکھ سے نہ کہ اپنے باطن اور اپنے ایمان کی آنکھوں سے، ایمان تو تیرے پاس ہے ہی نہیں، پس ضرور ہے کہ بصیرت بھی نہ ہوگی کہ اس سے دیکھ سکے اپنے غیر کو حق تعالیٰ فرماتا ہے:
(الحج46:22)
پس آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں لیکن دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔
جو شخص مخلوق کے ہاتھوں سے دنیا حاصل کرنے کی طمع میں رہتا ہے وہ اپنے دین کو دنیا کے بدلے، اور باقی رہنے والی کو فنا ہو جانے والی کے بدلے میں بیچتا ہے،پس ضروری بات ہے کہ اس کے ہاتھ نہ یہ آئے گی نہ وہ، جب تک تیرے ایمان میں ضعف رہے تو اپنی معاش کی اصلاح کے درپے رہ تاکہ لوگوں کا محتاج نہ بنے کہ خرچ کرنے لگے ان کے لئے اپنے دین کو اور کھانے لگے ان کے اموال کو دین کے بدلے میں، پھر جب تیرا ایمان قوی اور کامل ہو جائے تو اللہ پر توکل رکھے، اسباب سے باہر نکل جائے، ارباب باطلہ سے منقطع ہو جانے اور قلب سے تمام چیزوں کو چھوڑ دینے کو اختیار کرکے اپنے قلب کو باہر نکال دے اپنے شہر سے، اپنے متعلقین سے، اپنی واقفیتوں سے، اور سونپ دے جو کچھ تیرے ہاتھ میں ہے اپنے اہل کو، اپنے بھائیوں کو، اپنے دوستوں کو، پس ایسا بن جا گویا کہ ملک الموت نے تیری روح قبض کر لی، گویا کہ پنجہ موت نے تجھ کو اچک لیا، گویا کہ زمین پھٹ گئی اور تجھ کو نگل لیا اور گویا کہ تقدیر۔