کہتے ہیں کہ اگر کسی گھر کی صفائی کے معیار کا اندازہ لگانا ہو تو اس کا باورچی خانہ یا غسل خانہ دیکھو۔ اگر کسی خاندان کے متعلق جاننا ہو تو ان کے ہاں شادی کی محفل میں شرکت کر کے دیکھو۔ ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی شخص کا کردار دیکھنا ہو تو اس کے ساتھ سفر کرو، لین دین کا معاملہ کرو یا اس کے ساتھ رہ کر دیکھو۔ اردو ادب کے مایہ ناز ادیب منو بھائی فرماتے تھے کہ اگر کسی معاشرے کے مزاج کو جانچنا ہو تو وہاں رائج الوقت محاوروں کو تنقیدی نگاہ سے دیکھو۔ کچھ پرانی بات نہیں ہمارے ہاں گفتگو میں محاوروں کی زبان کچھ اس طرح تھی۔ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی، آج کا کام کل پر نہ چھوڑو، آپ فصیحت اوروں کو نصیحت، بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی، ٹھنڈا لوہا گرم لوہے کو کاٹتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
یہ محاورے اشارہ کرتے ہیں کہ ہمارے آباؤاجداد اخلاقی اقدار اور تربیت کو کس قدر اہمیت دیتے اور غلط بات کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ نہ جانے کب، کہاں اور کیسے اچھے محاورے ہماری گفتگو سے گم ہوگئے۔ بالکل ایسے جیسے امن کی علامت فاختہ اب آپ کو کہیں دکھائی نہ دے گی۔ افسوس جنگ کے مثلاثی چیل اور کوے اس کو چیر پھاڑ کر کھا گئے ہیں۔ اب تو سپرپاور وہ ہے جس کے پاس کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مارنے کی طاقت ہے۔ہمارے آج کے زیر گفتگو محاورے کچھ اس طرح کے ہیں۔ وہاں داؤ چل گیا، پاپی پیٹ، سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، ٹکا سا جواب دیا، ایک حمام میں سب برہنہ ہیں، اپنا الو سیدھا کرو,بھیڑچال، اینٹ کا جواب پتھر سے دو۔
ابھی کل ہی کی بات ہے ایک دوست نے بتایا کہ وہ کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے کے افسر کے پاس بیٹھے تھے۔ باتوں باتوں میں ذکر آیا کہ فلاں افسر نے فلاں ملزم کو پیسے لے کر چھوڑ دیا۔ ان
صاحب نے بہت اطمینان سے فرمایا، ''جی پیٹ تو سب کے ساتھ لگا ہوا ہے''.ہمارے سکول کے زمانے میں گھی استعمال ہوتا تھا اور اس کے ٹن کے گول گول ڈبے کریانہ کی دکانوں پر اوپر تلے رکھ کر سجائے جاتے۔ ہمارے محلے کا ایک لڑکا دکان پر گیا، وہیں سے گھی کا ڈبہ خاموشی سے اٹھایا اور دکاندار کو بولا ''امی کہہ رہی ہیں کہ یہ ڈبہ نہیں چاہیے, واپس لے لو''. اگلے روز پتلون خریدنے ایک بڑے سٹور پر گیا۔ ٹرائی روم میں نئی پتلون پہنی، اس کے اوپر اپنی پرانی پتلون چڑھائی اور اعتماد کے ساتھ چلتا ہوا باہر آ گیا۔ پھر شام کو دوستوں میں بیٹھ کر اپنی ان ''داؤ چلنے والی'' کارروائیوں کو نہایت فخر سے بیان کیا۔ داؤ چلنا پہلوانی کے میدان کی ایک صفت ہے۔ پہلوانی تو بس قِصّہ پارِینَہ ہوگی لیکن ہم نے ''داؤ'' کو مہارت کے ساتھ محفوظ کرلیا ہے۔ سکول زمانے میں ٹیچر کو داؤ دے کر نکل جانے یا مہنگی چیزیں سستے داموں خرید کر اپنے اوپر ناز کرتے!!جونہی عملی زندگی میں قدم رکھا تو معلوم ہوا کہ یہ محاورہ تو یہاں اوڑھنا بچھونا ہے۔ داؤ لگا کر چھٹی پر چلے جانا، داؤ لگا کر ترقی پا لینا، داؤ لگا کر سائل سے رقم بٹور لینا۔ اگر آپ کو صحیح طرح سے داؤ لگانا یا داؤ سے نبٹنا نہیں آتا تو آپ ایک ناکام افسر ہیں، چاہے کتنے ہی قابل کیوں نہ ہوں۔
ہندوستان میں ایک دریا ہے نام ہے گنگا۔ ہندو مذہب میں نہایت مقدس وہ اپنے گناہوں کو دھونے کے لیے وہاں اشنان کرتے اور اپنے عزیزوں کی چتا جلانے کے بعد ان کی راکھ وہاں بہاتے ہیں۔ ہمارے ہاں بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا مطلب ہے موقع سے فائدہ اٹھاؤ، اس میں غلط یا صحیح کی تفریق نہیں۔ اگر آپ نے ایسے نادر موقع سے فائدہ نہ اٹھایا تو بے وقوف اور نکٹھو کے نام سے یاد کیئے جائیں گے۔ میرے ایک دوست کی کچھ عرصے کے لیے اسمگلنگ کی روک تھام کرنے والے ادارے میں پوسٹنگ ہوگئی۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ ایسی پوسٹنگ روز روز نہیں ملا کرتی۔ سب اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، تم زیادہ ایماندار بننے کی کوشش نہ کرنا۔ایک اور محاورہ جو ہمارے معاشرے کی عکاسی کرتا ہے، وہ ہے، ''بھیڑ چال'' آپ نے اکثر دیکھا ہوگا جہاں زیادہ بکریاں بھیڑیں جا رہی ہوں، سب وہیں چلنا شروع کر دیں گی۔ اس میں سوچنے سمجھنے کا عمل کم ہے۔ موجودہ دور میں اس محاورے پر جی جان سے عمل ہو رہا ہے۔ برانڈڈ اشیاء کی خرید و فروخت، چمچماتی گاڑیاں، جھوٹی نمود و نمائش اور شادی بیاہ پر بے تحاشا اصراف۔ ہر بچہ اور بڑا نئے ماڈل اور مہنگے سے مہنگا موبائل فون رکھنا چاہتا ہے۔ آج کل عیدالاضحیٰ کا زمانہ ہے۔ امراء طبقہ ایک نئی بھیڑ چال میں الجھ گیا ہے۔ لاکھوں روپے مالیت کے بیل خریدتے، ان کی نمائش کرتے اور پھر دھوم دھام سے ان کی قربانی کرتے ہیں۔ اللہ ان کی قربانی قبول فرمائے مگر اس طرح ایک مقدس فریضہ کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔اب آئیے ٹی وی کی طرف… ایک میزبان اور کچھ مہمانوں کے فارمولے پر ہر چینل بلا سوچے سمجھے عمل کر رہا ہے۔ کہیں کہیں ایک خاتون کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔ دنیا کہاں اور کس طریقے سے ترقی پر ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے، اس کی انہیں فکر نہیں۔ بس یہاں مختلف مہمان شخصیات کو بٹھا کر فضول بحث ہوتی ہے، نہ سر نہ پیر۔ اکثر یہ لوگ آپس میں لڑپڑتے ہیں، ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے اور آخر میں ناظر سوچتا ہے کہ میں نے یہ پروگرام دیکھا ہی کیوں۔ مجھے یاد ہے ہمارے بچپن میں محلے میں صرف ایک گھر میں ٹی وی ہوتا اور سارے محلے والے اس گھر میں میں جا کر ہفتے کی رات والی فلم، الف نون یا رابن ہڈ جیسے پسندیدہ پروگرام دیکھتے۔ اگرچہ بھیڑ وہاں بھی لگی ہوتی لیکن اس میں خلوص اور محبت شامل تھی، دکھاوا نہیں تھا۔ سہیل رانا نے کیا خوب کہا ہے۔
میرے بچپن کے دن کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آ گئے
میرے بچھڑوں کو مجھ سے ملا دے کوئی
میرا بچپن کسی مول لا دے کوئی