انسانی شعور کی نشوونما کے ساتھ ہی تہذیب و تمدن کی ترویج کا آغاز ہو گیا۔ تہذیب و تمدن انسان کے رہن سہن، لباس ، طرز تعمیر، لسان و ادب، رسوم و رواج، روایات، کھیل، موسیقی سمیت اکثر و بیشتر معاشرتی و سماجی حالات کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ دنیا کی جنگی تاریخ پہ نگاہ دوڑائیں تو ایک بات میں بڑا تسلسل نظر آتا ہے کہ فتح کے ساتھ ہی مفتوح اقوام پہ فاتح کی عسکری کے ساتھ ساتھ تہذیبی یلغار بھی نمایاں طور نظر آتی ہے جو عام طور پر اتنی شدید ہوتی ہے آندھی طوفان کی طرح مقامی تہذیب پہ چھا جاتی ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ مقامی تہذیب کو نگل جاتی ہے۔اکثر اوقات فاتح کی شان و شوکت سے مرعوب ہو کر مقامی لوگوں کو اپنا رہن سہن اور تہذیب و تمدن بہت حقیر نظر آتا ہے اور کبھی فاتح اپنے قبضے اور اقتدار کے دوام کی خاطر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مقامی تہذیب کو اسقدر ہدف تنقید بناتے ہیں کہ لوگ خود اس تہذیب کو کمتر سمجھنا شروع کر دیتے ہیں اپنے ہی علوم، فنون ، لباس، اجداد کی روایت سمیت ہر رسم کمتر گردانتے ہوئے اغیار کی تہذیبی رو میں بہہ جاتے ہیں۔برصغیر کی تاریخ اس حوالے سے بہت دلچسب ہے ہر حملہ آور اپنی تہذیب کی یلغار سمیت وارد ہوا، لیکن سب سے گہرے اور انمٹ تہذیبی نقوش انگریز حکمرانوں نے چھوڑے۔ پون صدی گزرنے کے باوجود برصغیر پہ انگریزی تہذیب کے اثرات بتدریج بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ برطانوی سامراج یہاں سے چلے جانے کے باوجود پوری قوت سے یہاں موجود ہے۔ سرکاری دفتری زبان، اشرافیہ کے ساتھ ساتھ اکثر سرکاری ملازمین کا دفتری لباس، عدالتی نظام، نظام حکومت،طب و صحت،تعلیم، رہن سہن، طرز تعمیر، حتی کہ حلیے بھی مغربی تہذیبی یلغار کے زیر اثر ہیں۔ ہمھیں باور کرایا گیا ہے کہ انگریز کے آنے سے قبل ہم بہت پسماندہ تھے، نہری نظام، ہسپتال، سڑکوں سمیت ذرائع رسل و رسائل وغیرہ انگریز کے دان کردہ ہیں۔ حالانکہ یہ بات کلی طور پر درست نہیں۔ البتہ صنعت و حرفت، مشینری میں ترقی اور ریلوے کے نظام جیسے چند نئے پراجیکٹ برصغیر میں انگریزوں کے کریڈٹ پر ہیں،لیکن میری دانست میں اگر انیسویں صدی میں انگریز برصغیر میں نہ بھی ہوتا تو نت نئی صنعتی و زرعی ایجادات کے ثمرات بہر حال یہاں کی وسیع منڈی اور خام مال کی بآسانی اور وافر فراہمی کی وجہ سے ضرور پہنچتے۔ صنعتی ترقی اور ریلوے نظام سے قطع نظر ، تعلیم، طب،رہن سہن ، طرز تعمیر، نظام عدل گستری، ذرائع رسل و رسائل وغیرہ مغرب کے دان کردہ ہر گز نہیں، انگریز کی برصغیر آمد سے قبل یہ سارا نظام یہاں موجود تھا جسے انگریزی انداز نے موقوف ڈیس پلیس یا supersede کیا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ ہزاروں سال قبل از مسیح کی تہذیب کو اتنے مختصر عرصے میں زیر یا تبدیل کرنا آسان تھا تو جناب جواب یہ ہے کہ بہت مشکل بلکہ تقریبآ ناممکن تھا۔ اس مقصد کے حصول کیلیے استعمار نے چاروں طرف سے حملہ آور ہونے کا فیصلہ کیا اس سلسلے کی سب سے اہم کڑی مقامی تہذیب کو کمتر دقیانوسی اور تیزی سے بدلتے زمانے کا ساتھ دینے کی صلاحیت سے عاری ثابت کرنا تھا۔ برصغیر کے لوگوں کی تبدیلی کو جلد جذب کرنے اور دوسروں سے جلد مرعوب ہونے کی فطرت نے مغربی تہذیبی یلغار کی رفتار کو غیر متوقع طور پر بڑھا دیا۔ لوگ اپنے روایتی علوم طب، مکتب، نظام عدل، لباس، رہن سہن بول چال سمیت اکثر امور میں انگریزی انداز و اطوار فخریہ طور پر اختیار کرنے لگے۔گزرتے وقت کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی سمیت تمام استعماری طاقتوں کی جگہ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے لے لی۔کنزیومر ازم نے کمپنی بہادر سے بھی زیادہ لوٹ مار اور تباہی مچائی۔ ان کمپنیوں نے بہت جلد میڈیا پہ کنٹرول حاصل کر کے لوگوں کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت صلب کر لی۔ اشتہارات ، ڈرامے اور فلمیں رحجان سازی کا ذریعہ بن گئے۔ یہاں سے فیشن انڈسٹری نے جو کہ چند دہائیاں قبل اشرافیہ اور اعلی طبقات تک محدود تھی مڈل کلاس کا دروازہ کھٹکھٹایا، یہ کلاس کنزیومر ازم کے پھیلائے جال کے باعث پہلے سے ہی مشترکہ خاندانی نظام سے چھٹکارے کی تگ و دو میں لگی تھی میڈیا کے زیر اثر اس کلاس نے فیشن انڈسٹری کو بلا چون و چرا خوش آمدید کہا اس کے بعد تو سسکتی،دھڑکتی ہوئی مقامی تہذیب کو سمجھیں دیس نکالا ہی مل گیا۔ ہر گھر میں جدید فیشن کے دلدادہ خواتین و حضرات کی بھر مار ہو گئی جس کے لازمی نتیجے کے طور پر فیشن انڈسٹری اور کنزیومر ازم کی داعی کمپنیوں نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی، لوگوں کی جیبوں سے جدت و فیشن کے نام پہ پیسے نکلوانے کے نئے نئے طریقے متعارف ہوئے حتی انسان نے مشین کی شکل اختیار کر لی اس کی زندگی کا محور و مرکز جدید طرز کا مکان بمعہ جملہ آسائشات جدید لباس و طرز زندگی، گاڑی وغیرہ قرار پائے اب یہ مشین کی طرز کا انسان جو کماتا ہے وہ کار میکر، بلڈر اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے کماتا ہے یو مسائل کے ایک نہ ختم ہونے والے اور گہرے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ استحصالی مغربی تہذیب کے زیر اثر بظاہر جدید طرز زندگی اختیار کرنے والے لوگ دراصل ہزاروں سال پرانے غلامی کے دور میں رہ رہے ہیں جہاں زندگی کا مقصد باس کو راضی رکھنا، اس کی غلامی کرنا اس کے کام کرنا اور بدلے میں کچھ آسائش حاصل کرنا۔ اس سارے پس منظر میں دیکھا جائے تو تہذیب کی اس بے ہنگم تبدیلی نے ہمارے مسائل میں بیشمار اضافہ کر کے بدلے میں بہت تھوڑی سی آسائش مہیا کی ہے یوں سراسر خسارے کا سودا ثابت ہوئی ہے۔ میری ناقص رائے میں اب بھی کچھ نہیں بگڑا تھوڑا سا اس جادوئی تہذیب کے جادو سے نکل کر روزمرہ حالات کا جائزہ لیں تو بآسانی اپنے مسائل اور ان کے حل سے آگاہ ہو سکتے ہیں ۔
ایک بات تو طے ہے کہ اس اس طرز زندگی سے اب نکلا نہیں جا سکتا ہم اسقدر آگے جا چکے ہیں کہ واپسی کے راستے مسدود ہو چکے۔اب صرف اتنا ممکن ہے کہ اسی طرز زندگی کے اندر رہتے ہوئے حتیٰ المقدور رواداری اور امداد باہمی پہ مبنی اپنے روایتی طرز زندگی کے فروغ کی سہی کر کے غیر ضروری جدیدیت کی یلغار کے سامنے بند باندھا جائے۔ جدیدیت کی اچھائیوں کو ضرور اپنائیں لیکن اس کی برائیوں سے بچیں۔کنزیومر ازم اور فیشن انڈسٹری نے کئی دہائیوں میں کھربوں خرچ کر کے ہمھیں پھنسایا ہے اس دلدل سے نکلنے میں بھی وقت لگے گا لیکن نکلنے کا وقت شعور سے مشروط ہے۔ شعور و ادراک ہی وہ آلے جو نجات کے سفر کی راہ متعین کریں گے لہذا سب سے پہلا کام جو ہم نے کرنا ہے وہ اغیار کی سوچ، افکار، تخیل اور نظریات سے چھٹکارا حاصل کر کے خود سوچنے ،سمجھنے پرکھنے کی چھینی گئی صلاحیت کو واپس حاصل کرنا ہے۔