ویسے تو ہمارے یہاں ہر وقت سیاست فل سونگ میں رہتی ہے۔ ہر موسم ہی سیاست کا موسم ہوتا ہے ، سرما ہو یا گرما ، خزاں ہو یا بہار ، سیاست میں گرمی ہی رہتی ہے۔ لیکن الیکشن کا موسم سیاست کا اصل سیزن ہوتا ہے۔ اس سیزن کے شروع ہوتے ہی نئی نئی دکانیں کھل جاتی ہیں اور نئے نئے دکاندار سامنے آجاتے ہیں۔ کچھ نئی پیکنگ میں پرانا مال لے آتے ہیں اور کئی اپنے ہی پرانے مال کی نئے انداز میں مارکیٹنگ کرنے میں لگ جاتے ہیں۔ یہ دس کروڑ سے زیادہ گاہکوں(ووٹرز ) کی مارکیٹ ہے جہاں الیکشن سیزن میں ستر، اسّی کے لگ بھگ سیاسی دکانیں اپنا مال بیچنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ان میں درجن بھر ہی وہ ہیں جو اس کام کو سنجیدگی سے کرتی ہیں۔ باقی سب شوقیہ سیاسی فنکار ہوتے ہیں جو انتخابی سیزن میں ہی دکھائی دیتے ہیں۔ پھر چار پانچ سال غائب۔
یہاں سیاسی دکانوں کے ساتھ گاہک یعنی ووٹرز کی بھی اقسام ہیں۔کچھ ووٹرز تو کھل کھلا کر کسی ایک جماعت کو سپورٹ کرتے ہیں۔انہیں ہم جیالے،متوالے اور ٹائیگر جیسے ناموں سے پکارتے ہیں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔ یہ اگر مگر کیساتھ کسی کی حمایت کرتے ہیں اسے ووٹ بھی دیتے ہیں لیکن خودکو اس کا سپورٹر بھی نہیں مانتے، کچھ ہوا کا رخ دیکھ کر ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ ہوتے ہیں جنہیں سیاسی جماعتیں پرکشش مارکیٹنگ سے اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کرتی ہیں جس میں پرجوش نعرے ، سہانے سبز باغ شامل ہوتے ہیں۔ لیکن ان سب سے زیادہ ’’سانوں کیہ‘‘ والے ہوتے ہیں۔
یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو کہہ دیتے ہیں کوئی بھی جیتے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔ کوئی بھی آئے ہماری بلا سے۔ ہمیں تو اپنا وہی کام کرتے رہنا ہے اپنے گھر سے ہی کھانا ہے وغیرہ۔
ملک کے حالات کا ذمہ دار ہم ہمیشہ جیتنے اور اقتدار میں رہنے والی جماعت کو قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں بھی کوستے اور طعنے دیتے ہیں جنہوں نے اس جماعت کو ووٹ دیا، اور کہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ ہی ایسے ہیں جو انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ ایسے لوگ تو بیس پچیس یا زیادہ سے زیادہ تیس فیصد ہوتے ہیں۔ ہماری انتخابی تاریخ دیکھ لیں یہاں اوسط ٹرن آوٹ پچاس فیصد سے بھی کم ہی رہتا ہے۔ یعنی ووٹ ڈالنے ،انتخابی عمل کا حصہ بننے والے پچاس فیصد سے بھی کم رہے ہیں۔
ووٹرز کی نصف سے بھی زیادہ آبادی ان لوگوں پر مشتمل ہے جو اس عمل کا حصہ ہی نہیں بنتے، یہ لوگ انتخابات کے دن کو ایک چھٹی کا دن سمجھ کر گزار دیتے ہیں سو کر ،گھر میں ٹی وی یا کوئی فلم وغیرہ دیکھ کر لیکن پولنگ اسٹیشن تک جانے کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ ملک میں جو بھی حالات بنتے ہیں اسکے بڑے ذمہ دار یہ ‘‘سانوں کیہ’’ والے ہی تو ہیں۔ ووٹ ڈالنا اور انتخابی عمل کا حصہ بننا ہر بالغ شہری کی قومی ذمہ داری ہے دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ووٹرز کو پولنگ اسٹیشن پر لانے کیلئے اہم اقدامات کئے جاتے ہیں۔ خطے میں بنگلہ دیش جیسے ممالک میں بیلٹ پیپرز پر ایک خالی خانہ رکھا جاتا ہے یہ ان ووٹرز کیلئے ہوتا ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتے اور اگر ایسے ووٹرز پچاس فیصد سے زیادہ ہوں جو اس خالی خانے میں مہر لگائیں تو حلقے کاالیکشن دوبارہ کرانا پڑجاتا ہے۔
پاکستان میں بھی 2013 کے انتخابات سے قبل یہ تجویز زیر بحث آئی لیکن اسے ‘‘قانونی پیچیدگیوں ‘‘ کے باعث مسترد کردیا گیا۔
یہاں سب سے بڑی پیچیدگی یہی ہے کہ انتخابات کے بعد کئی حلقوں میں دوبارہ پولنگ کرانا پڑسکتی ہے جہاں خالی خانہ جیت جائے۔اور ایسی نشستوں کی تعداد کچھ زیادہ نکل آئے تو حکومت سازی ہی تاخیر کا شکار ہوجائے گی اور انتخابی اخراجات الگ۔ خالی خانے کی یہ پیچیدگیاں اپنی جگہ لیکن ووٹرز کو انتخابی عمل کا حصہ بنانے اور پولنگ اسٹیشنز پر لانے کیلئے شعور کی بیداری زیادہ ضروری ہے۔ لوگوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنا اور انہیں یہ آگاہی دینا کہ وہ سمجھیں ان کا ووٹ کتنا طاقتور ہے۔ وہ صرف ایک ووٹ نہیں جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ چار پانچ کروڑ ایسے ووٹرز ہیں جو یہ سوچ کر گھر سے نہیں نکلتے کہ ان کے ایک ووٹ سے کیا فرق پڑے گا اور یہ پچاس فیصد ان ووٹرز سے دوگنا سے بھی زیادہ ہیں جو کسی ایک جماعت کو اقتدار میں لاتے ہیں تو پھر جیتنے والے کی کمی کوتاہی یا نااہلی کے اصل ذمہ دار تو یہی ہوئے ناں۔ یاد رکھیں آپ کی دلچسپی سیاست میں ہے یا نہیں ،آپ کو کوئی اچھا لگتا ہے یا نہیں، آپ کو کسی پر اعتبار ہے یا نہیں، کسی کے وعدوں پر یقین ہے یا نہیں، انتخابی عمل کا حصہ بننا، پولنگ اسٹیشن تک جانا، ووٹ دینا کسی اور کی نہیں آپ کی ضرورت ہے۔ اور اگر آپ سانوں کیہ کہہ کر گھر بیٹھے رہیں گے تو پھر ملکی حالات پر گلہ شکوہ کرنے پر بھی آپ کو یہی جواب ملے گا۔ تْہانوں کیہ۔
٭…٭…٭
سانوں کیہ
Jul 15, 2023