گزشتہ کالم ’اباجی‘ میں ضیاء الحق کے مارشل لاء میں کوڑوں کی سزاسنائے جانے کاذکر ہواتھا۔ بہت سے احباب نے کوڑے مارے جانے کے عمل کے بارے میں اپنے اشتیاق کااظہارکیا ۔ اکتوبر1979ء جب کوڑوں کی سزالیے میں سنٹرل جیل گوجرانوالہ پہنچا تو سپرنٹنڈنٹ جیل چودھری یار محمد وریانہ نے مجھے پرانے تعلق خاطر جو میرے بارہا جیل جانے سے پیدا ہوچکا تھا کی بناء پر کوئی سخت قسم کی مشقت کی بجائے جیل کی فیکٹری کا ’امدادی منشی‘ بنادیا، یعنی فیکٹری انچارچ ہیڈ وارڈ کا نائب۔ بڑی شاہانہ مشقت تھی۔ سارا دن دوسرے قیدیوں سے کام کرانا اور خود فارغ رہنا۔ فیکٹری کا احاطہ کافی وسیع تھا۔ یہاں قالین بافی، کھاناپکانے والی دیگیں،تختہ سیاہ پر لکھنے والے چونے کے چاک اورگتے کے ڈبے وغیرہ بنتے تھے۔
پیپلز پارٹی کے مقامی رہنما اور سابق ایم پی اے لالہ فاضل بھی اسی فیکٹری میں میرے ہمراہ سزاکاٹ رہے تھے۔ وہ میرے محلہ داربھی تھے اس لیے گھنٹوں پرانے شناسا محلہ داروں کے قصے بیان کرتے ،کئی گفتنی وناگفتنی باتیں کرکے وقت گزرجاتااورہم فیکٹری سے واپس اپنی بیرک میں آجاتے۔ کولہو کے بیل کی طرح سفر کٹتا رہا۔ سکندر پہلوان نامی ایک قیدی جیل کا ’کوڑے مار‘ تھا جسے جیلوں میں عمومی طورپر’بیدمار‘کہا جاتا ہے۔ سکندر کاتعلق سیالکوٹ سے تھا جو قتل کے ایک مقدمے میں عمر قید کی سزاکاٹ رہا تھا۔ جیل قوانین کے مطابق جس شخص کی سزا کا ایک خاص حصہ ختم ہوجائے تو اسے ’نمبردار‘ بنادیاجاتا تھاجوجیل کانظام چلانے کے حکام کی مدد کرتا۔ ایسے نمبرداروںکی بیرک بھی الگ ہوتی۔ سرخ رنگ کی ٹوپی پہنے۔ جیل کے وی آئی پی قیدی بن جانے کے بعد ان کو الگ الگ فرائض تفویض کیے جاتے۔
سکندر چونکہ پہلوان تھا اس لیے اسے’بیدمار‘ بنادیا گیاتھا جسے قانون کے مطابق ایک کلو دودھ اور کچھ سرسوں کا تیل سرکاری طورپرروزانہ مہیا کیا جاتا تھا۔ سکندر اپنی کوڑے مارنے کی مشق روزانہ فیکٹری کے احاطہ میں ہی کرتا۔ وہ ایک درخت پر ہوائی چپل کاتلوہ رسی سے باندھ دیتااورخود دور سے مستانی دوڑ لگاتے ہوئے کوڑا لہرا کر آتا اور لمحہ بھرمیں اسے چپل پر مار دیتا۔ ایسامشاق کوڑے مار ہوچکا تھا کہ مجال ہے جو کوڑا ایک انچ بھی ادھر ادھر ہوجائے۔ میں پاس بیٹھا جب یہ مشق دیکھ رہا ہوتا تو لگتا یہ کوڑے مجھے ہی لگ رہے ہیں۔ ایک بارمیں نے اسے کہاکہ سکندر کچھ خدا کاخوف کرو، یہ مشق کسی اور جگہ کرلیا کرو۔ ’کھوکھر صاحب، آپ بالکل فکر نہ کریں، جس دن آپ کوکوڑے لگنا ہوں گے میں خوداپنے ہاتھوں سے بروقت افیون کھلا دوں گا۔ آپ کو بہت کم درد محسوس ہوگا اور میرا بھی فرض ادا ہوجائے گا۔ اس طرح اللہ دونوں کی عزت رکھ لے گا‘، سکندرنے بڑے پیار سے جواب دیا ۔
جیل کا کوڑے مار افسران کے منہ لگا ہوتا ہے۔ منشیات بیچنا، جوا کرانا، بیڑیاں لگوانا یا اتروانا، کسی کی بیرک تبدیل کروانا، کسی کو مشقت میں رعایت دلوانا، غرضیکہ اس طرح کے چھوٹے موٹے کام کروا کر اپنا خرچہ وغیرہ بھی چلاتا رہتا ہے۔ سورج طلوح ہوتا اور غروب ہوجاتا۔ ستارے ٹمٹماتے اور ختم ہو جاتے، قریبی مسجد سے ’الصلوٰۃ خیر من النوم‘کی صدا بلند ہوتی اور قیدی اٹھ کھڑے ہوتے، شام ڈھلے مشقت ختم ہو جاتی اور لوگ اپنی اپنی بیرکوں میں جا کر کھانا کھاتے، کچھ تاش کی بازی لگاتے لیتے، کچھ’کمسئی‘ (Dice) کھیل کر جوئے کا جنون پورا کرتے۔’چکر‘ میں بیڑیوں کے بجنے کا شور بپا رہتا۔ لوہار خانہ اور دھوبی خانہ بھی مصروف رہتا۔ لمبی قید یا چھوٹی قید والے اس جہنم میں جل رہے ہوتے۔
دن رات اسی طرح گزرتے رہے کہ ایک دن تحریکِ استقلال کے مقامی رہنما عبدالعلیم کھوکھر ایڈووکیٹ نے لاہور ہائی کورٹ میںرٹ دائر کرکے سزا میں سے کوڑے معاف کروا لیے جبکہ باقی سال بھر کی سزا جاری رہی۔ اس موقع پر سکندر بھی بہت خوش تھا۔ جب اسے اطلاع ملی توخوشی سے بھاگتا ہوا میرے پاس آیا اور کہاشکر ہے کہ اللہ نے ہم دونوں کی سن لی۔ میں کہا تھا نا کہ وہ عزتیں رکھنے والا ہے۔ جیلوں میں انسانی زندگی کو بڑی مصیبتوں اور آلام کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ اس جہنم کی آگ کو وزیر اعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے کسی حدتک ٹھنڈا کیا۔ کوڑے مارنے اور بیڑیاں لگانے کی سزا کو عملی طور پر ختم کردیا۔ نمبردار قیدی سسٹم کو ختم کردیا گیا۔ بہت سی سزائیں سپرنٹنڈنٹ جیل کی بجائے سیشن جج کے تابع کردی گئیں۔
چودھری پرویز الٰہی کی وزارتِ اعلیٰ میں جہاں اور بہت سے نئے ادارے اور اصلاحات قائم کی گئیں وہاں جیلوں کے حالات بھی بہت بدل گئے ۔ قیدیوں کے لیے روایتی دال روٹی کے معیار کو اچھا کرنے کے علاوہ جیلوں میں مرغ کا گوشت، میٹھے چاول اور دیگر اچھے کھانوں کے لیے جیلوں کے بجٹ میں بہت اضافہ کیا گیا۔ اب پنجاب کے ان بلا خانوں میں نمبردار کی جگہ تنخواہ دار جیل فورس کے وارڈرز نے لے لی۔ پھر دھوبی خانوں، لوہار خانوں، اندرونی پنجوں، بیرونی پنجوں کا خاتمہ ہوگیا۔ اب قیدیوں سے غیر ضروری مشقت کی بجائے کارآمد مشقت لی جاتی ہے۔ جیل کے قصائی خانوں میں اب نہ بیڑیاں پہنائی جاتی ہیں اور نہ کوئی نمبردار باقی رہا۔ نہ کوئی کوڑے لگائے جاتے ہیں اور نہ کوئی ’سکندرکوڑے مار‘ رہا۔ بس ان مصیبتوں، آزمائشوں اور کلفتوںکے ساتھ گزرے وقت کی منحوس یادیں باقی ہیں جن میں سکندر ہمیشہ ایک مثبت کردار کے طور پر سامنے آتا ہے تو طبیعت شاد ہو جاتی ہے۔
افسوس ناک: گزشتہ ہفتے شہرکی معروف سیاسی ،کاروباری اورصاحب علم شخصیت خواجہ صالح اللہ کو پیارے ہوگئے ۔انااللہ وانا الیہ راجعون
٭…٭…٭