13 پارٹیوں کا بھان متی کنبہ جلد ایک دوسرے کا پوسٹ مارٹم کرنیوالا ہے‘ شیخ رشید۔
ویسے موجودہ اتحادی حکومت پر ’’کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑہ‘ بھان متی نے کنبہ جوڑا‘‘ والی مثال صادق ہی آتی ہے۔ ان جماعتوں نے اقتدار میں آکر دل و جان سے صرف اپنے ذاتی مسائل کے حل کی طرف توجہ دی مگر عوام کی طرف کبھی نہیں دیکھا‘ انہیں تو صرف صبر کا لالی پاپ کی دیتی رہی۔ انتخابات کی آمد آمد ہے‘ ظاہر ہے انتخابی میدان میں ہر پارٹی اپنا منشور لے کر الگ سے اترنا چاہے گی‘ جس کیلئے ایک دوسرے کا پوسٹ مارٹم کرنا ان کی مجبوری بنے گی۔ چند ہفتے قبل بلاول بھٹو زرداری تو ایک تیر چلا بھی چکے ہیں جس میں انہوں نے بجٹ کے حوالے سے (ن) لیگ کو خاصی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ بے شک اتحادی پارٹیاں اپنے اپنے پلیٹ فارم سے انتخابات لڑنے کا حق رکھتی ہیں‘ اس کیلئے ضروری نہیں کہ ایک دوسرے کا پوسٹ مارٹم کیا جائے۔ اتفاق رائے سے ہی اپنی راہیں الگ کرلیں تو قوم کے سامنے اچھا تاثر جائیگا۔ مگر کیا کریں‘ ہماری سیاست کا کلچر ہی یہ بن چکا ہے کہ جب تک ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھالا جائے‘ عوام کو مطمئن کرنے کا کوئی اور فارمولہ کارگرد ثابت ہی نہیں ہو پاتا۔ رہی بات شیخ صاحب کی تو انہیں علم ہونا چاہیے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کا پوسٹ مارٹم کرتی رہتی ہیں۔ قوم کیسے بھول سکتی ہے کہ آج کے وزیراعظم نے اپنے موجودہ سب سے بڑے حلیف زرداری صاحب کو کرپشن کے الزام میں سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا تھا مگر آج انہی کے ساتھ شیروشکر ہوئے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح زرداری صاحب بھی (ن) لیگ پر تنقید کے خاصے نشتر چلا چکے ہیں مگر کیا کریں کمبخت سیاست میں کوئی حرف آخر نہیں ہوتا اسی لئے ایسے سیاسی پوسٹ مارٹم صرف ریکارڈ بنانے کیلئے کئے جاتے ہیں‘ علاج کیلئے نہیں۔ جب علاج کرنے والوں کے مفادات یکساں ہو جائیں تو پھر ملک و قوم میں پھیلے غربت اور بے روزگاری کے ناسور کا علاج کیسے ہو پائے گا؟
٭…٭…٭
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں بھوکے رہنے والوں کی تعداد میں 12 کروڑ کااضافہ ہوا‘ یہ اضافہ روس اور یوکرائن جنگ کے باعث ہوا جبکہ سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹریس کا کہنا ہے کہ آدھی دنیا قرضوں کے بحران کی وجہ سے تباہی میں ڈوب رہی ہے۔
یہ رپورٹ اس ادارے کی طرف سے پیش کی گئی ہے جس کا بنیادی کام ہی دو لڑنے والے ملکوں کے درمیان صلح صفائی کرانا ہے مگر وہ اپنی اس ذمہ داری سے بالکل عاری نظر آتا ہے۔ فلسطین و کشمیر کا مسئلہ ہی دیکھ لیں‘ ان دونوں علاقوں میں سب سے زیادہ انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اور ظالم اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں اور دہشت گرد بھارت نے نہتے کشمیریوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے‘ ظلم و ستم کا کوئی ہتھکنڈہ ایسا نہیں جو ان پر آزمایا نہ جارہا ہو‘ دونوں دہشت گرد ملکوں نے انکی آزادی سلب کی ہوئی ہے۔ مگر مجال ہے اس عالمی ادارے کی طرف سے کوئی بے چینی دیکھنے آئی ہویا اسکے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ مگر جب مشرقی تیمور جیسا مسئلہ سامنے آجائے تو نہ صرف اس ادارے کی بے چینی میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ اسکی نیندیں بھی حرام ہو جاتی ہیں۔ یہ وہی مشرقی تیمور ہے جہاں 1989ء میں پاپ جان پال نے دورہ کیا اور وہاں کی رومن کیتھولک آبادی کو پریشانیوں میں مبتلا پایا جسے پاپ جان نے دنیا کے سامنے شدومد کے ساتھ اجاگر کیا اور ان رومنز کا مسئلہ دنوں میں حل کرادیا گیا جبکہ 75 سال سے زائدکا عرصہ گزر چکا‘ فلسطینیوں اور کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم اس ادارے کو ہرگز نظر نہیں آرہے۔ انکے مسئلے پر قراردادیں تو منظور کرلی جاتی ہیں مگر ان پر عملدرآمد کی نوبت نہیں آنے دی جاتی۔ روس اور یوکرائن کی جنگ کے اثرات کئی ممالک پر اثرانداز ہو رہے ہیں‘ جومعاشی طور پر زبوں حالی کا شکار ہو رہے ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں 12 کروڑ بھوکوں کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ اپنے چارٹر کے تحت پہلے یوکرائن اور روس کے مسئلے کا کوئی پائیدار حل نکالے تاکہ حالات کو بہتری کی طرف لایا جا سکے۔ مگر یہاں بھی یہ ادارہ بے بس نظر آتا ہے کیونکہ اس جنگ میں امریکہ اپنا لچ تل رہا ہے۔ اسکے مفادات کا تحفظ کرنا بھی تو اسی ادارے کی ذمہ داری ہے۔ دنیا بھر میں 12 کروڑ بھوکوں کا اضافہ واقعی تشویشناک امر ہے۔ ظاہر ہے معیشت میں بہتری آئیگی تب ہی بھوکوں پر قابو پایا جاسکے گا۔ اس کیلئے جی 20 کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے مگر وہ بھی سیاست کی نذر ہوتی نظر آرہی ہے۔ اس پر بھارت کا غلبہ واضح طور پر نظر آنے لگا ہے۔ گزشتہ مئی کا جی 20 کا اجلاس نئی دہلی میں ہونا تھا مگر بھارت نے سازش کے تحت اسے متنازعہ علاقہ کشمیر میں منتقل کر دیا تاکہ اسے غیرمتنازعہ علاقہ ظاہر کر سکے۔ مزے کی بات یہ کہ صرف چین‘ سعودی عرب اور ترکیہ نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا مگر باقی رکن ممالک نے اس اجلاس میں بھرپور شرکت کرکے بھارتی سازش کو تقویت پہنچائی۔ اگر مسائل حل کرنیوالے عالمی نمائندہ ادارے ہی جانبداری کا مظاہرہ کریں گے تو دنیا کے مسائل کیسے حل ہو پائیں گے۔ ابھی تو صرف دنیا کے 12 کروڑ بھوکے سامنے آئے ہیں‘ اگر مسائل پر قابو نہ پایا گیا تو پھر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
٭…٭…٭
مرض شناخت کرنیوالا لالی پاپ ایجاد۔
لو جی ! سائنس دانوں نے دن رات محنت کرکے ایکسرے مشین ایجاد کی پھر اس میں تھوڑی جدت پیدا کرکے میگنیٹک ریزونینس امیجنگ (ایم آر آئی) مشین ایجاد کی تاکہ مرض کی تشخیص میں آسانی لائی جاسکے‘ مگر اس لالی پاپ کی ایجاد نے لگتا ہے ان تمام مشینوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہے‘ ان مشینوں کی افادیت اب بھی موجود ہے‘ سائنس دانوں نے لالی پاپ میں تھوڑی سی ترمیم کرکے منہ اور سانس کے امراض کی تشخیص کرنیوالے ایک آلے میں تبدیل کردیا ہے۔ کئی امرض کی تشخیص کیلئے حلق کی گہرائی سے لعاب کے نمونے درکار ہوتے ہیں اور اس عمل سے بچے ڈرتے ہیں یا دور بھاگتے ہیں۔ اس لئے سائنس دانوں نے ایک برقی آلہ بنایا جس پر کوائل نما ابھار ہیں‘ اسکی دوسری جانب بچوں کیلئے لالی پا پ کی ٹافی چپکائی گئی ہے تاکہ بچے اسے لالی پاپ سمجھ کر منہ میں رکھ لیں اور تشخیص کا کام آسان ہو جائے۔ پرانے وقتوں میں حکماء بہترین نبض شناس ہوا کرتے تھے‘ نبض دیکھ کر ہی مرض کی تشخیص کرلیا کرتے تھے اور کمال یہ تھا کہ وہ تشخیص سو فیصد درست ہوا کرتی تھی۔ اسی لئے لوگ انگریزی علاج کے مقابلے میں دیسی علاج کو ترجیح دیا کرتے تھے۔ اب نہ وہ نبض شناس رہے نہ لوگوں کا یقین۔ دیسی ادویات اب بھی موجود ہیں مگر ان کا درست استعمال کرنے والے بہت کم رہ گئے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں مرض کی تشخیص پر بہت دھیان دیا جاتا ہے‘ جب تک مرض نہ پکڑا جائے‘ علاج شروع نہیں کیا جاتا جبکہ ہمارے ہاں ان سے زیادہ ترقی پائی جاتی ہے۔ گلی محلوں میں بیٹھے عطائی نہ نبض دیکھتے ہیں نہ تشخیصی رپورٹیں‘ کیونکہ وہ تو ان چیزوں سے بہت آگے نکل چکے ہیں‘ اب مریض کی قسمت کہ وہ انکے علاج سے آر ہوتا ہے یا پار۔