یورپی پارلیمنٹ نے بھارت میں اقلیتوں پر نسلی و مذہبی تشدد اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت اور دیگر معاملات انسانی حقوق کی فراہمی کے ساتھ منسلک کئے جائیں۔ اس سلسلہ میں یورپی پارلیمنٹ نے گزشتہ روز ایک قرارداد منظور کی جس میں بھارت کی مودی سرکار کی جانب سے مذہبی آزادی اور اظہار رائے پر پابندی عائد کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ بھارت میں عائد ہونیوالی قدغنوں کیخلاف یورپی پارلیمنٹ آواز اٹھاتی رہے گی۔ قرارداد میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کا تقاضا کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہندو اکثریت پسندی کو بڑھاوا دینے والی نفرت انگیز بھارتی پالیسیوں پر ہمیں تشویش ہے۔ بھارت اقلیتوں پر مذہبی و نسلی تشدد روکے اور ریاستی سطح پر اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔ قرارداد میں بھارت سرکار کو یہ بھی باور کرایا گیا کہ میڈیا پر پابندی اور نسل پرست آئین سازی کے باعث منی پور میں فسادات انتہائی تشویشناک ہیں۔
اسی طرح پاکستان نے بھی باور کرایا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور کشمیریوں کی حق خودارادیت کیلئے اٹھائی جانیوالی آواز دبانے کیلئے ان پر ریاستی جبر وتشدد میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔ اس سلسلہ میں ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرا بلوچ نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف وزریوں میں ملوث ہے مگر گزشتہ سات دہائیوں سے جبر کا کوئی ہتھکنڈہ کشمیریوں کی خواہش تبدیل نہیں کر سکا۔ پاکستان کشمیری بہن بھائیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ پاکستانی قوم نے کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کے جذبے کے تحت ہی جمعرات 13 جولائی کو یوم شہدائے کشمیر کے طور پر منایا ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے یاد دلایا کہ 1931ء میں 13 جولائی کو ہی ڈوگرا فوج نے کشمیری مسلمانوں کو بے دریغ فائرنگ کا نشانہ بنایا تھا۔ بھارت کی جانب سے کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
کشمیریوں پر گزشتہ 75 سال سے زائد عرصہ سے جاری بھارتی مظالم میں تو یقیناً کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان مظالم کا سلسلہ تیز سے تیز تر ہوتا رہا ہے جس کے نتیجہ میں اب تک لاکھوں کشمیری باشندے شہید اور لاکھوں زخمی ہونے کے بعد مستقل معذوری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتے رہے ہیں۔ کشمیریوں نے تو قیام پاکستان سے بھی دو دہائیاں قبل ڈوگرا مہاراج کے ظلم وجبر کیخلاف آواز اٹھانا شروع کر دی تھی اور اسی بنیاد پر ڈوگرا فوج نے 13 جولائی 1931ء کو اپنے حق کیلئے مظاہرہ کرنیوالے کشمیریوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ان پر سیدھے فائر کھول کر دو درجن سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا۔ کشمیری عوام دنیا بھر میں ہر سال 13 جولائی کو یوم شہدائے کشمیر منا کر اپنے شہداء کی قربانیوں کی یاد تازہ کرتے ہیں اور پاکستانی قوم بھی کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے 13 جولائی کو یوم شہدائے کشمیر کے موقع پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر آواز اٹھانے اور ان کا دامے‘ درمے‘ سخنے اور سفارتی سطح پر ساتھ دینے کے عزم کا اعادہ کرتی ہے۔ چنانچہ گزشتہ روز بھی پاکستانی قوم نے مختلف تقاریب‘ جلسوں‘ جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے کشمیریوں کا ساتھ دینے اور ان پر جاری بھارتی مظالم کیخلاف بھرپور آواز اٹھانے کے عزم کا اعادہ کیا جبکہ بھارت کی مودی سرکار نے اپنی سکیورٹی فورسز کے ذریعے گزشتہ روز 13 جولائی کو بھی کشمیریوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام میں پانچ بے گناہ کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کرلیا۔ پاکستان اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری عوام گزشتہ روز یوم شہدائے کشمیر مناتے ہوئے بھارتی جبرِ مسلسل کیخلاف سراپا احتجاج بنے رہے۔
یہ امر واقع ہے کہ کشمیریوں نے بھارتی تسلط سے آزادی کیلئے 75 سال قبل بلند کی گئی شمع کی لَو کبھی مدھم نہیں ہونے دی اور کشمیر کی خودمختاری سمیت بھارت کی جانب سے کی جانیوالی ہر پیشکش کو ٹھکرا کر اپنی آزادی کی جدوجہد برقرار رکھی ہے۔ کشمیریوں کو استصواب کا حق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے اپنی متعدد قراردادوں کے ذریعے دیا تھا مگر بدقسمتی سے بعض بڑی طاقتوں کی کٹھ پتلی بنے اس نمائندہ عالمی ادارے نے ان قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے اپنی ذمہ داری نہ نبھائی جس سے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دینے والے بھارت کے حوصلے بلند ہوتے رہے اور اس نے ظلم و جبر کے ذریعے کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرنے کی پالیسی اختیار کرلی۔ اس نے اپنے ساتھ آزادی حاصل کرنیوالے اپنے پڑوسی پاکستان کے ساتھ بھی اسی تناظر میں شروع دن سے دشمنی مول لی کہ اسے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا ساتھ دینے سے روکا جائے مگر کشمیریوں نے تقسیم ہند سے بھی قبل چودھری غلام عباس کی زیرقیادت اپنے نمائندہ اجلاس میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور پاکستان نے بھی کشمیریوں کا ساتھ دینے کا عہد ہمہ وقت نبھایا ہے جس کی پاداش میں اسے بھارت کی مسلط کردہ تین جنگوں کا سامنا کرنا پڑا اور سانحہ سقوط ڈھاکہ کا گہرا صدمہ اٹھانا پڑا۔
پاکستان کی سلامتی کیخلاف بھارتی سازشوں اور بدنیتی میں تو کبھی کمی نہیں آئی اور وہ آج بھی پاکستان میں پیدا کئے گئے سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سے فائدہ اٹھانے کی کوششوں میں مصروف ہے جبکہ ہندو انتہاء پسندوں کی نمائندہ بی جے پی کی مودی سرکار نے پاکستان کیخلاف محاذ کھولنے اور کشمیریوں کو اپنے پانچ اگست 2019ء والے جبری اقدام کے ذریعے انکے گھروں میں محصور کرنے اور باہر کی دنیا سے ان کا رابطہ منقطع کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی مسلمان اور دوسری اقلیتوں کا عرصۂ حیات بھی تنگ کر رکھا ہے۔ بھارت کی یہ پالیسی درحقیقت ان الحادی قوتوں کا ایجنڈا ہے جو مسلم دنیا کے غالب ہونے کے خوف سے اس میں نفاق اور انتشار پیدا کرکے اس کا امتِ واحدہ والا اتحاد توڑنے کی سازشوں میں مصروف ہیں۔ بھارت کی مودی سرکار بھی انہی الحادی قوتوں کے مہرے کے طور پر کام کر رہی ہے اور بھارتی اقلیتوں کو‘ جن میں مسلمان غالب اکثریت میں ہیں‘ ہر قسم کی شہری‘ مذہبی آزادیوں اور انسانی حقوق سے مستقل محروم کرکے انہیں عملاً زندہ درگور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ چنانچہ اس گھمبیر صورتحال کا ادراک کرکے انسانی حقوق کے ترجمان نمائندہ عالمی اداروں اور پارلیمانوں کی جانب سے بھی سخت لب و لہجے میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے اور بھارت پر اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر دبائو ڈالا جارہا ہے۔ نریندر مودی کے گزشتہ ماہ کے دورہ امریکہ کے موقع پر 80ء کے قریب امریکی ارکانِ کانگرس نے بھی اپنے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ بیان امریکی صدر بائیڈن کو بھجوایا تھا جس میں ان سے مودی کے روبرو بھارتی اقلیتوں کے حق میں آواز اٹھانے کا تقاضا کیا گیا۔ یہی تقاضا اب تمام عالمی قیادتوں سے یورپی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد میں بھی کیا گیا ہے اور بھارتی سپریم کورٹ نے بھی کشمیر کی پانچ اگست 2019ء سے پہلے والی آئینی حیثیت کی بحالی کیلئے دائر کردہ درخواست کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کا آغاز کر دیا ہے جو مودی سرکار کیخلاف بھارت کے اندر موجود اضطراب کی عکاسی ہے۔ اس تناظر میں بھارت سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کرانے کا یہی وقت ہے۔ اگر اب بھی عالمی قیادتوں کی جانب سے گومگو سے کام لیا گیا تو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔