عوام کو مسائل کا حل بتانا ہوگا ، ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر چھوڑنا درست نہیں چیف جسٹس 


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہر چیزکی ذمہ داری حکومت پر چھوڑنا درست نہیں، آبادی میں بے ہنگم اضافے پر قابو پانے کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ ججوں کو معاشرے کے بارے میں نئی ضرورتوں اور آئیڈیاز کا علم ہونا چاہیے۔ آبادی میں اضافے کے حوالے سے لا اینڈ جسٹس کمیشن کے زیر اہتمام دو روزہ کانفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس نے کہا کہ فرد کی خوشی خاندان کی خوشی میں مضمر ہے، ماں اور بچے کی صحت کا خیال رکھنا ریاست کی ذمہ داری ہے، آبادی میں بے ہنگم اضافے پر قابو پانے کیلئے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ سمیت مختلف ادارے حکومت کی معاونت کر رہے ہیں۔ بنگلہ دیش اور ایران نے بڑھتی آبادی پر کیسے قابو پایا، ہمارے لیے کیس سٹڈی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آبادی پر قابو پانے سے اہم آبادی کو سود مند بنانا ضروری ہے، ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر چھوڑنا درست نہیں، کچھ چیزوں میں صحیح اور غلط کا پیمانہ معاشرہ خود طے کرے، اسلام خاندانی نظام کو مضبوط بناتا ہے، ایک نسل پہلے تک رشتہ دار ایک دوسرے کی طاقت ہوتے تھے، نئی نسل کو ہنر مند بنا کر بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ آبادی کے مسائل قانونی نقطہ نظر سے حل نہیں کئے جا سکتے، معاشرہ مسائل کا حل تلاش کر کے ریاست کی معاونت کرے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ 1947 میں جب پاکستان بنا تو اس کے پاس کوئی دولت نہیں تھی۔ عام لوگوں نے پاکستان کو پیسے دیے۔ اس وقت پاکستان کے لوگوں نے اپنی ذمے داری کا احساس کیا۔ ایک وقت تھا جب پاکستان نے چین کو قرض دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں پہلا اقدام اٹھاتے ہوئے سادگی اپنانا ہوگی۔ ہمیں تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ سادہ اقدامات ہیں جو کرنے چاہئیں۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے تعلیم ناگزیر ہے۔ بہتر پیشہ ورانہ تعلیم سے معاشرہ ٹھیک ہوگا۔ سپریم کورٹ لیگل فورم اس کے لیے نہیں ہے۔ ہم صرف بنیادی حقوق کی بات کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے عوام کو سامنے آکر ریاست کو مسائل کا حل بتانا ہوگا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں پہلا اقدام اٹھاتے ہوئے سادگی اپنانا ہوگی۔ ہمیں تعلیم اور پیشہ ورانہ تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وہ سادہ اقدامات ہیں جو کرنے چاہئیں۔ ہم 2 روزہ کانفرنس میں تجاویز دیں گے۔ یہاں مقدمہ بازی سپریم کورٹ تک آتی ہے۔ ہمیں مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ججوں کو معاشرے کے بارے میں نئی ضرورتوں اور آئیڈیاز کا علم ہونا چاہیے۔ 
چیف جسٹس

ای پیپر دی نیشن