ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

فہمیدہ کوثر
باالاخر ڈیفالٹ ہونے کیتلوار سر پر منڈلارہی تھی اسکی روک تھام ہوگئی اور مملکت خداداد ڈیفالٹ ہونے سے بچ گئی اب یہ لمحہ خوشی ہے یا افسوس  کا کہ ہم نے اپنی ناعاقبت اندیشیوں سے مملکت کو اس حالت میں پہنچادیا کہ اس پر شکر کر رہے ہیں بالکل اسی طرح جب ایوب خان عشرہ ترقی منارہا تھا تو مارکیٹ سے چینی ااور اشیائے خوردونوش غائب تھیں  ہمارے ہاں ترقی کا مفہوم زرا مختلف ہے بلکہ نہ سمجھ میں آنے والا ہے تاریخی صفحوں پر لکھا ہے کہ  ہارون الرشید کے دور میں اشیائے خوردونوش اسقدر سستی تھیں کہ باہر سے آنے والے سیاح اپنے ملک جاکر تعریفوں کے پل باندھ دیتے تھے اسکے انصاف کا یہ عالم تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے پھر ہر آنے والے بادشاہ نے اسی فارمولے کو اپنایا کہ کسی بکری یا کتے کو دریائے دجلہ کے سامنے پیاسا نہیں مرنا چاہیے تاریخ کیا کہے گی ہم کیسے بادشاہ ہیں جو بکری اور شیر کو ایک گھاٹ میں پانی نہ پلاسکے۔ ابن خلدون کہتا ہے کہ تاریخ کا ایک خوف ہوتا ہے اور یہی خوف بادشاہوں سے خود تاریخ لکھواتا رہا ہے  تزک بابری بابر کی خود نوشتہ تاریخ ہے وہ سمرقند سے آیا تھا اسے یہاں کے لوگ موسم  اور گرمی پسند نہیں آئی۔۔ اس نے لکھاکہ یہاں کے لوگ  سست کاہل اور عقل سے بے بہرہ ہیں جس نقطے کی ہمیں ابھی تک سمجھ نہیں آئی بابر سولہویں صدی میں  میں ہمیں بتاگیا تھا لمحہ فکریہ یہ نہیں کہ بابر کیا بتاکرگیا۔ لمحہ فکریہ یہ کہ ہم نے کبھی خود کو دریافت ہی نہیں کیا  ایک شخص کو مرگی کا دورہ پڑا اور وہ سڑک پرگر کر تڑپنے لگا چند لوگ دوڑے ہوئے آئے اور حکیمانہ مشورے دینے لگے ایک نے کہا کہ منہ پر پانی  کے چھینٹیں مارو ایک نے کہا جوتا سونگھاؤ ایک آواز آئی جوتا دکھاؤ اب وہاں عجیب سیاسی ماحول پیدا ہوگیا کہ جوتا دکھانا ہے کہ سونگھانا ہے  ابھی لوگ اسی تذبذب میں تھے کہ پیچھے سے آواز آئی  اسے دودھ جلیبی  کھلاؤ کسی نے اسکی آواز پر کان نہ دھرا۔ پھر آواز آئی۔ بھائی اسے دودھ جلیبی کھلاؤ جب اسکی پھر نہ سنی گئی تو جسکو مرگی کا دورہ پڑا ہوا تھا  آخر کار  بول اٹھا یار پچھلے کی بھی سن لو اس واقعہ سے کچھ ثابت ہونا ہو یہ بات تو واضح ہے کہ ہم مطلب کی بات ہی سننا  چاہتے ہیں  دنیا کیا کہتی ہے کہنے دو۔ بقول شاعر کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا  بحث  کالب لباب یہ ہے کہ ہم نے کوئی ایسا فارمولا ایجاد ہی نہیں کیا کہ دوشیر ہی ایک گھاٹ سے پانی پی لیں۔ ہم نے اس فارمولے پرعمل کیا کہ  ایک سلطنت میں دوشیر نہیں ہونے چاہئیںاب دوسرے شیر کے خاتمے کے لئے ہر ممکن جارحیت سے اسکی طاقت کچھار تک محدود کردو۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ  شیر تو پھر شیر ہوتا ہے اسکی  ایک ہی دھاڑ سے پورا جنگل لرز جاتا ہے۔  بات ڈیفالٹ ہونے کے خطرے سے بچنے سے  شروع ہوئی تھی اور واپس اسی نکتے پر اگئی ہے کہ  اب کیا سب ٹھیک ہوجائے گا بقول شاعر ابھی عشق کے امتحاں  اور بھی ہیں۔ ہمیں اسوقت باہم مل بیٹھ کر وطن عزیز کے لئے مشترکہ فیصلے کرنے  ہوں گے مزید غربت مہنگائی اور بے بسی منہ کھولے کھڑی ہے جسطرح ناصر کاظمی نے کہا کہ 
ہماری گھرکی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سورہی ہے
اسی طرح ہر غریب کی ٹوٹی پھوٹی دیواروں پر اسکی قسمت بال کھولے سو رہی ہے ہم آئی ایم ایف کے شکنجے میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں ایک ماہر اقتصادیات لکھتا ہے کہ آئی ایم ایف ترقی یافتہ دنیا کاوہ گماشتہ ہے  جومسلمانوں اور پاکستانی عوام کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتا ویسے آئی ایم ایف کو چنداں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہمارا بھی پچھتر سالوں سے عوام کی ترقی اور خوشحالی کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ ہم نے عوام کی ترقی کا نعرہ لگاکر عوام کی ہمدردی  ضرورسمیٹی ہے لیکن ترقی کیا ہے اس کے ثمرات غریب تک کیسے پہنچانے ہیں، ہم بالکل بے بہرہ ہیں۔ لیکن ہماری ترقی کا پیمانہ ہمیشہ یہی رہا ہے بقول شاعر
کہا کاریں بنائیں ہم کہا کاریں بناؤ تم
کہا جاپان کاڈر ہے کہا جاپان تو ہوگا
اب موجودہ صورتحال پر تو یہ کہا جاسکتا ہے 
کہا آئی ایم ایف کاڈر ہے کہ آئی ایم ایف تو ہوگا
 آئی ایم  اف انہی ممالک کو قرضے کو قرضے فراہم کرتاہے جو ان کے رہنما اصولوں پر عمل کرنے کی حامی بھرتے ہیں  اور ہم حامی بھرچکے ہیں ڈیفاالٹ سے بچنے  کے بعد اگلا موسم وعدوں کو پورا کرنے کاہے  اور سب وعدے لازم ہیں بقول شاعر
زندگی کے پرچے کے
سب سوال مشکل ہیں
سب سوال لازم ہیں
ہماری حکومتوں کے لئے یہ آسان ہوتا ہے کہ روزمرہ ضروریات کی اشیاء پر ٹیکس لگاکر زیادہ سے زیادہ سرمایہ بٹورکر خسارہ کم کیا  جاسکے اسی لئے پوراسال نئے ٹیکس لگتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ایک غریب آدمی جتنی دفعہ ماچس تک خریدتا ہے اس پرٹیکس ادا کرتا ہے جن ممالک کی پیروی میں پاکستان کے غریب عوام کوٹیکس دینے کی ترغیب دی جاتی ہے ان ممالک میں  پولیس کا ایک سپاہی بھی بغیر اجازت گھر میں داخل ہوجائے تو حکومت کومصیبت پڑجاتی ہے اورکروڑوں روپے بطور ہرجانہ ادا کرنا پڑتا ہے محض ٹیکس نیٹ بڑھانا مسائل کا حل نہیں ہے  بلکہ اسکاحل وہ الیکشن ہیں تاکہ دیرپا حکومت کاقیام عمل میں آئے اور لانگ ٹرم پالیسی پر عمل کیا جاسکے

ای پیپر دی نیشن