امریکی صدر بائیڈن کا بڑھاپا ٹرمپ کے مخالفین کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ انہیں خوف لاحق ہے کہ یوکرین کے صدر کو جس کا ملک ان دنوں روس کے ساتھ اپنی بقاء کی جنگ لڑرہا ہے ’’پوٹن‘‘ پکارتے ہوئے بائیڈن نے اپنا ’’خللِ دماغ‘‘ عیاں کردیا ہے۔ اس کے بعد وہ اگر رواں برس کے نومبر میں صدارتی انتخاب لڑنے کو بضد رہا تو اس کے بے شمار حامی بھی پولنگ بوتھ پر جانے کو آمادہ نہیں ہوں گے۔ یوں ٹرمپ بآسانی جیت جائے گا اور وائٹ ہائوس پہنچتے ہی اپنے مخالفین سے حساب برابر کرنے کو ڈٹ جائے گا۔اس کی بدولت امریکہ کا ’’جمہوری نظام‘‘ فسطائیت میں بدل جائے گا۔
بائیڈن دنیا کی واحد سپرطاقت کہلاتے ملک کا صدر ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ حقیر قلم گھسیٹ بحیثیت فردپانی کے محض ایک بلبلے کی مانند ہے۔ اس کے باوجود گزشتہ چند دنوں سے مجھے یہ وہم لاحق ہے کہ بڑھتی عمر نے میری یادداشت کوفی الحال متاثر نہیں کیا۔ ’’خللِ دماغ‘‘ کی علامات مگر نمایاں ہورہی ہیں۔
اپنی دماغی صحت پر سوال میں نے گزرے جمعہ کی سہ پہر سے ٹھوس وجوہات کی بنا پر اٹھانا شروع کئے۔ اس روز بارہ بجے کے بعد سپریم کورٹ کے فل بنچ نے چیف جسٹس کی صدارت میں جو فیصلہ سنایا اس کے بارے میں برجستہ طورپر خوش ہوا۔ ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے یہ محسوس کیا کہ جمعہ کے روز سنائے فیصلے نے 8فروری 2024کے دن عاشقان عمران خان کی جانب سے بیلٹ پیپروں پر اپنی پسند کے انتخابی نشان پر لگائی مہروں کے ذریعے دکھائی وارفتگی کا کھلے دل سے اعتراف کیا ہے۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کو انفرادی حیثیت میں منتخب نہیں کیا گیا تھا۔ جو ووٹ انہیں ملے درحقیقت ’’قیدی نمبر804‘‘ سے محبت کا اظہار تھے۔ اس کی بنائی جماعت کو لہٰذا ’’سنی اتحاد کونسل‘‘ میں مدغم ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ کامن سینس کا تقاضہ ہے کہ 8فروری کے روز نظر بظاہر’’آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہونے والے اراکین کو تحریک انصاف نامی جماعت کا رکن ہی تصور کیا جائے۔ وہ اسی نام سے اپنی پارلیمانی پارٹی تشکیل دیں اور اجتماعی حیثیت میں انہیں جو ووٹ ملے ہیں ان کے تناسب سے تحریک انصاف کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستیں الاٹ کردی جائیں۔
فیصلہ سنتے ہی میرے ذہن میں جو خیالات برجستہ آئے ان کا اظہار میں ٹی وی سکرین پر ہوئے تبصرے کے دوران بھی کرتا رہا۔ چند ناظرین کو یہ خیالات سن کر حیرانی ہوئی۔ وہ سنجیدگی سے محسوس کرتے ہیں کہ میں بانی تحریک انصاف کا ’’ویری‘‘ ہوں۔ اسی باعث مجھ سے غالباََ یہ توقع باندھے ہوئے تھے کہ میں تحریک انصاف کے دیگر نقادوں کی طرح سپریم کورٹ کی جانب سے جمعہ کے روز سنائے فیصلے میں ’’سقم‘‘ تلاش کرتے ہوئے انہیں عمران خان کو مختلف ریاستی ’’ستونوں‘‘ کا ’’لاڈلا‘‘ ثابت کرنے کے لئے استعمال کروں گا۔ ایمانداری کی بات ہے کہ ٹی وی سکرینوں کے لئے اپنے خیالات کا برجستہ اظہار کرتے ہوئے میرے ذہن میں ایک لمحے کو بھی مذکورہ پہلو نمودار نہیں ہوا۔ جو ذہن میں آیا روانی سے بیان کرتا چلا گیا۔
جمعہ کی دوپہر کھانے کے بعد قیلولہ سے فارغ ہوا تو یہ جاننے کیلئے ٹی وی کا ریموٹ اٹھالیا کہ تبصرہ نگاروں کی اکثریت سپریم کورٹ کی جانب سے سنائے فیصلے کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے۔ بٹن دباکر چند سکرینیں دیکھ لیں تو جی اُکتا گیا۔لیپ ٹاپ کھول کر لہٰذا یوٹیوبرز سے رجوع کرنا شروع ہوگیا۔ سوشل میڈیا پر حاوی ذہن سازوں کے خیالات سنے تو اپنی سادگی پر بہت حیرانی ہوئی۔
سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں کی بدولت پھیلتا بیانیہ شدت سے مصر تھا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے جو فیصلہ آیا اس کی وجوہات اتنی ’’فطری‘‘ نہیں تھیں جو میں احمقانہ سادگی سے محسوس کررہا تھا۔ ’’خبر‘‘ یہ ملی کہ تحریک انصاف کو اس کے تاریخی انتخابی نشان-بلے- سے محروم رکھنا درحقیقت ایک گہری سازش تھی۔ اس کے حتمی اہداف میں موجودہ چیف جسٹس کو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے میعاد ملازمت میں کم از کم 3سال کی توسیع فراہم کرنا بھی شامل تھا۔ مبینہ ہدف کے حصول کے لئے جب تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار قومی اسمبلی پہنچ گئے تو انہیں سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہونے کے باوجود ’’آزاد‘‘ حیثیت میں منتخب ہوئے امیدوار ہی شمار کیا گیا۔ اور یوں انہیں خواتین اور غیر مسلم پاکستانیوں کے لئے مختص نشستوں سے محروم رکھتے ہوئے ’’ان کے حصے کی‘‘ نشستیں حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں میں بانٹ دی گئیں۔ الیکشن کمیشن نے اس تناظر میں جو فیاضی برتی اس کی بدولت چند نشستیں مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی اور اے این پی کو بھی ’’خیرات‘‘ کردی گئیں۔ قصہ مختصر حکمران اتحاد کو دو تہائی اکثریت فراہم کردی گئی تانکہ مبینہ طورپر موجودہ چیف جسٹس صاحب کی معیادِ ملازمت میں توسیع کی جو گیم لگائی گئی ہے اسے کامیاب بنایا جاسکے۔
دیانت داری کی بات ہے کہ عملی صحافت سے عرصہ ہوا ریٹائر ہونے کی وجہ سے میں ہرگز اس پوزیشن میں نہیں کہ یہ طے کرسکوں کہ مذکورہ بالا گیم لگائی گئی تھی یا نہیں۔ جس گیم کا ذکر ہورہا تھا اسے رپورٹ کرنے والے مگر جواں سال صحافی ہیں جو اپنے دن کا بیشتر حصہ عدالتوں ہی میں دھکے کھاتے گزارتے ہیں۔ ان میں سے چند میرے چہیتے بھی ہیں۔ میں ان کی بات نہایت سنجیدگی سے لیتا ہوں ۔ غور کومجبور ہوا تو جھکی ذہن میں یہ خیال آیا کہ تحریک انصاف کو اس ’’فطری‘‘ انداز میں انصاف فراہم نہیں ہوا جو میں فرض کئے ہوئے تھا۔ درحقیقت ایک مبینہ سازش کو ناکام بنانے کے لئے ہماری اعلیٰ ترین عدلیہ کے 8عزت مآب جج متحد ہوگئے اور موجودہ چیف جسٹس صاحب کی رواں برس کے اکتوبر میں ریٹائرمنٹ یقینی بنادی۔
اس پہلو پر غور کرتے ہوئے احساس ہوا کہ میرا دماغ واقعی کھسک گیا ہے۔ اپنے گھر تک محدود ہونے کی وجہ سے میں ایوان ہائے اقتدار کی غلام گردشوں میں دھیمے سروں میں گونجتی سازشوں سے لاعلم رہتا ہوں۔ سیاسی منظر نامے پر جو نظر آتا ہے اس پر تبصرہ آرائی سے مطمئن ہوجاتا ہوں۔’’سازش‘‘ کو بروقت جان نہ سکنے کے سبب خود سے شرمندہ محسوس کرنا شروع ہوگیا ہوں۔ ایسے عالم میں دنیا بھر میں وائرل ہوئی بائیڈن کی وہ کلپ دیکھی تو دل مزید گھبرا گیا جس میں امریکی صدر یوکرینی صدر کو ’’پوٹن‘‘ پکاررہا ہے۔
اپنے خللِ دماغ کے ایماندارانہ اعتراف کے باوجود ملکی سیاست کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے لیکن اس امر پر اصرار کرنا چاہتا ہوں کہ گزشتہ جمعہ کے روز آئے فیصلے نے اگرکسی مبینہ’’سازش‘‘ کو واقعتا ناکام بنایا ہے تب بھی سازشی گیم آن ہی رہے گی۔ اس کا خاتمہ نہیں ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ جواباََ کونسا پتہ پھینکا جائے گا۔ اس کے علاوہ سازشوں کی بات چلی ہے تو ان مہروں کی نشاندہی بھی لازمی ہے جنہیں پٹوانا ’’شہ مات‘‘ کی ضرورت ہوتی ہے۔