کربلا کے تقاضے

عاشورہ محرم ہمیں ہر سال اس عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے جو نواسہ رسول اور ان کے 72 جانثاروں نے اپنی جان کی قربانی دے کر ایک عظیم الشان مثال قائم کی ہے جو رہتی دنیا تک پوری عالم انسانیت کے لئے ایک درس عظیم ہے۔
واقعہ کربلا ہمیں یہ درس عظیم دیتا ہے کہ جابر حکمران کے سامنے ہمیشہ کلمہ حق کہنا ہے جب بھی دین کو ہماری ضرورت پڑے ہمیں لبیک کہنا ہے اج فلسطین میں مقبوضہ کشمیر میں اور بہت سے جگہوں پر جہاں ہنود و یہود مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں اج بھی کربلا کی طرح کئی ننھے معصوموں کو شہید کیا جا رہا ہے معصوم پھول کلیوں جیسے بچوں کے نازک گلے کاٹے جا رہے ہیں اج بھی دنیا کو بہت سی جگہوں پر یزیدیت کا سامنا ہے اج بھی حسینیت پکار رہی ہے کہ اج بھی ہمیں کفر ظلم اور جبر کے خلاف حسین بن کر کھڑا ہونا چاہیے کہ ہر طرف سے یہی صدا آ رہی ہے کہ
 قافلہ حجاز میں ایک بھی حسین ؓ نہیں 
 آج ہمیں درس کربلا یہ ملتا ہے کہ کہیں بھی دین کو خطرہ ہو کچھ بھی ہو ہمیں یزیدیت قبول نہیں کرنی حسینیت قبول کرنی ہے فرقہ واریت کو ختم کرنا ہے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کے اس فلسفہ قربانی پر عمل کرنا ہے جو اسلام کا حصہ ہے کہ ابتدا اس کی اسماعیل ہیں اور نہایت ہیں حسین۔اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے۔ اک ضرب ید الٰہی ایک سجدہ شبیری
 شاہ است حسین بادشاہ است حسین 
سرداد نہ داد در دست یزید
 حقا کہ بنائے لا الہ است حسین 
 حضرت امام حسین علیہ السلام کی اس عظیم الشان قربانی کے بہت سے تقاضے ہیں جنہیں ہم سب کو پورا کرنا چاہیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین ؓسے ہوں اہل بیت کی محبت کو لازمی قرار دیا گیا ہے اور کہا ہے کہ جس نے اہل بیت سے محبت کی اس کی شفاعت واجب ہو گئی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے اخری خطبے میں یہی کہا کہ میں اپنی امت کے لیے دو چیزیں چھوڑیجا رہا ہوں اگر اپ نے ان کو پکڑے رکھا تو ہی نجات ہے ایک اللہ کی کتاب قران مجید اور دوسری آ پ کی اہل بیت آج ہم امت مسلمہ تفرقہ بازیوں میں پڑ گئے ہیں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں نواسہ رسول جگر گوشہ بتول حضرت امام حسین علیہ السلام نے جس عظیم مقصد کے لیے قربانی دی ہم اس مقصد کو بھول گئے ہیں انہوں نے دین کی بقا کے لیے قربانی دی انہوں نے اپنے نانا کے دین کی حفاظت کے لیے قربانی دی اج ہم سب کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ ہم اس دین مبین کی حفاظت کریں جس کے لیے حضرت امام حسین علیہ السلام نے اپنی جان کی قربانی دی ہم اج قران مجید پڑھنا بھول گئے اس سے ہدایت لینا بھول گئے ہیں آج ہم دنیا کے کاموں میں اتنے مگن ہو گئے ہیں کہ ہم نماز کو بھول گئے ہیں وہ نماز وہ سجدہ جس کے لیے امام عالی مقام نے اپنا سر کٹوا دیا لیکن نماز قضا نہ کی نماز پڑھنا نہ بھولیاس نماز کو قائم رکھنے کے لیے اس دین کو قائم رکھنے کے لیے انہوں نے سجدے میں اپنے سر کو کٹوا دیس اور دین بچا لیا دین کی لاج رکھ دی کسی فاسق اور فاجر کی اطاعت قبول نہ کی آج بھی معاشرے میں ہمیں بہت سے یزیدوں کا سامنا ہے حسینیت اج بھی پکار پکار کے کہہ رہی ہے :
 یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق 
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق 
 پھر کبھی بھی انسان یزیدیت کو قبول نہ کرے کبھی بھی یزید کے راستے پر نہ چلے اج یزید کا کوئی نام لینے والا بھی نہیں صرف اس پہ لعنت کرنے والے لوگ موجود ہیں جبکہ حضرت امام حسین ؓکا نام آج بھی باقی ہے۔
 وہ جو مٹ گیا وہ یزید تھا وہ جو زندہ ہے آج بھی وہ حسین ہے۔
اے کر بلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول 
تڑپی ہے تجھ پہ لاش جگر گوشہ بتول
 اسلام کے لہو سے تیری پیاس بجھ گئی
 سیراب کر گیا تجھے خون رگ رسولؐ
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن