آغا شورش کاشمیری کی’’موت سے واپسی‘‘

Jul 15, 2024

فاروق عالم انصاری

حق گوئی اور بیباکی کے ساتھ وجاہت، خطابت، شاعری کے ایزادسے حضرت آغا شورش کاشمیری تشکیل پائے ہیں۔ہمارے آغا جی ایک فرد نہیں، لکھنے پڑھنے والوں کے ایک عہد کا نام ہے۔ اب نہ وہ لکھنے والے رہے اور نہ ہی وہ پڑھنے والے۔ جہاں پڑھنے کا شوق دم توڑ جائے وہاں برگسان اور نٹشے جیسے عظیم قلمکار بھی بھلا کیا تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ایک بڑے پولیس افسر نے آغا جی کو کھانے پر بلایا۔ پوچھنے لگے۔ 65ء کی جنگ کے بعد صدر ایوب کی مقبولیت میں کمی کا سبب کیا ہے؟پھر اپنے سوال کی یوں وضاحت کی کہ ان کی ڈیوٹی لگائی گئی ہے کہ مختلف واقفان حال سے یہ پوچھا جائے۔ پھر اس نے اپنی بات یوں مکمل کی۔ اسی لئے آج آپ کو بھی تکلیف دی گئی ہے۔ آغا جی بولے۔ میری طرف سے لکھ بھیجئے۔ وہ مقبول ہی کب تھے کہ انہیں مقبولیت میں کمی کا احساس ہوا۔ اس جواب میں آغا جی کی پوری شخصیت موجود تھی۔عظیم خطیب سید عطاء اللہ  شاہ بخاری نے اپنی دو لفظی روداد حیات یوں کہی: ’آدھی جیل میں کٹ گئی، آدھی ریل میں‘۔ سو آغا شورش کاشمیری کا بھی عمر بھر جیل آناجانا لگا رہا۔ انہوں نے گوروں کی جیل بھی دیکھی اور کالوں کی بھی۔ ان کے عہد کی صحافت، خطابت اور شاعری میں مولانا ظفر علی خاں بھی ایک بڑا نام ہے۔ مولانا اپنے ایک شعر میں اپنے تئیں وقت کا رستم ہونے کے دعویدار ہیں جبکہ وہ ہمارے آغا جی کوسہراب قرار دیتے ہیں۔ 
کالم نگار کے والد محترم علامہ عزیز انصاری مرحوم و مغفور کا آغا شورش کاشمیری سے محبت و اخلاص کا گہرا رشتہ تھا۔ سو آغا جی کو قریب سے دیکھنے کے کالم نگار کو بہت سے مواقع میسر آتے رہے۔ آغا جی کی تصانیف کی فہرست خاصی طویل ہے۔ ان دنوں یہ کتابیں مارکیٹ سے دستیاب نہیں۔ ان کی دوبارہ اشاعت کا اہتمام کیا جارہا ہے۔ ابتداء ’’موت سے واپسی‘‘ سے ہوئی ہے۔ اس کا ایک نسخہ کالم نگار کے ہاتھوں میں ہے۔تبرک کے طور پر اس میں سے چند نثر پارے:
’’یونان کا ایک نامور فلسفی جب عوام کی ناقدری سے عاجز آگیا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کے فکر و نظر اور علم و حکمت پر لوگ توجہ نہیں دیتے بلکہ مذاق اڑاتے ہیں اور اس پر پتھراؤ کرتے ہیں تو اس نے دشنام و اتہام سے تنگ آکر رقص و سرور کا ایک طائفہ بنایا۔ پھٹے پرانے کپڑے پہن کر ڈھول گلے میں ڈالا۔ چہرے پرببوت مل لی، ہاتھوں میں کنگن ڈال لئے، گانے بجانے کا سوانگ رچایا اور پاگلوں کی طرح بازاروں میں ناچنے لگا۔ وہ رقص و غنا کے ابجد سے بھی واقف نہ تھا لیکن رسمی دانشوروں نے سرپر اٹھالیا۔ اس کے رقص پر محاکمہ ہونے لگاکہ اس فن میں اس نے نئی راہیں نکالی ہیں۔تب پاگل تھا اب مجتہد ہے‘‘۔ 
جب یونان میں اس کے نئے روپ کا شہرہ عام ہو گیاتو اس نے اعلان کیا کہ فلاں دن وہ اوپن ایئر تھیٹر میں اپنے طائفہ سمیت رقص و سرور کے نئے انداز پیش کرے گا۔ تمام ایتھنز ٹوٹ پڑا۔ اس نے رقص کا نیا انداز پیش کیا۔سرتاپا دیوانہ ہوگیا۔ناچ نہیں جانتا تھا لیکن پاگلوں کی طرح ناچتا رہا۔ عوام و خاص اور امراء و شرفاء لوٹ پوٹ گئے۔ جب وہ تھک گیا اور محسوس کیا کہ جو لوگ اس کے سامنے بیٹھے ہیں اس کی مٹھی میں ہیں تو یکا یک سنجیدہ ہو کر کہا:۔ 
’’یونان کے بیٹو! میں تمہارے سامنے علم و دانائی کی باتیں کرتا رہا۔ میں نے تمہاری برتری کے لئے فکر و علم کے موتی بکھیرے، تم نے میری باتیں سننے سے انکار کر دیا، میرا مذاق اڑایا، مجھے گالیوں سے نوازا، پتھراؤ کیااور خوش ہوتے رہے۔ تم نے حق و صداقت کی ہر بات سننے سے انکار کیا۔مجھے پاگل قرار دیکر خود پاگلوں کی سی حرکتیں کرتے رہے۔ تم نے اپنے دماغ حکمرانوں کے پاس رہن رکھ دیئے۔ تمہارے جسموں کی طرح تمہاری عقلیں بھی امراء و حکام کی جاگیر ہوگئی ہیں۔ 
میں عاجز آگیا تو میں نے یہ روپ اختیار کیا۔ میں فلسفی کی جگہ بھانڈ ہو گیا۔مجھے کچھ معلوم نہیں کہ ناچ کیا ہوتا ہے اور گانا کسے کہتے ہیں۔ لیکن تم نے میرے اس بھانڈ پن پر تحسین و ستائش کے ڈونگرے برسائے۔ پہلے تم سے چار آدمی بھی میرے گرد جمع نہیں ہوتے تھے۔ آج انسانوں کا جم غفیر میرے سامنے بیٹھا ہے۔ گویا تم نے مٹ جانے والی قوم اور ایک فنا ہو جانے والے معاشرے کی تمام نشانیاں قبول کر لی ہیں۔ تم ایک انحطاط پذیر ملک کی علیل روحوں کا انبوہ ہو۔ تم پر خدا کی پھٹکار ہو۔ تم نے دانائی کو ٹھکرایا اور رسوائی پسند کی۔ تم خدا کے غضب سے کیونکر بچ سکتے ہو کہ تمہارے نزدیک علم ذلیل ہو گیا ہے اور عیش، شرف و آبرو۔ جا ؤ میں تم پر تھوکتا ہوں۔ میں پہلے بھی پاگل تھا آج بھی پاگل ہوں۔ جب علم و نظر اور فکر و معروف کو یہ مرحلہ جانکنی پیش آجائے۔ خوشامد کابول بالا ہو اور حکمت و دانائی احمقوں کے گھرانے میں چلی جائے اور وہ اپنے دماغ کی علالت کو صحت کا نام دینے لگیں۔ علم کے مالک جاہل، ادب کے اجارہ دار گاؤدی، سیاست کے متولی کاسہ لیس اور دین کے مسند نشین بکاؤ ہو جائیں تو اس فضا میں یونان کے فلسفی کی طرح پاگل ہوکر ناچنا بھی عین عبادت ہے اور نہیں تو اس سے خدا کا غضب ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ 
’’حجاج بن یوسف اپنے مصاحبوں کے ساتھ گھوم پھر رہا تھا۔ اس نے ایک راہگیر سے پوچھا۔ تمہارا حجاج بن یوسف کے متعلق کیا خیال ہے؟ راہگیر نے کہا۔ صاحب کچھ نہ پوچھیئے۔ وہ پرلے درجے کا سفاک اور اسفل ترین انسان ہے۔ حجاج نے ساتھیوں سے کہا اسے ساتھ لے لو۔ وہ ساتھ لے کر چلے تو راہگیر نے پوچھا۔ یہ کون ہے؟ ایک نے کہا حجاج بن یوسف۔وہ بھونچکا رہ گیا۔اس نے فوراً ہی آگے بڑھ کر کہا۔امیر!مہینہ میں، میں تین دن پاگل ہو جاتا ہوں۔ آج میرا پہلا دن ہے۔ حجاج مسکرایا۔وہ مصاحبوں سے کہنے لگا۔ اسے چھوڑ دواور وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا نو دو گیارہ ہو گیا۔بالفاظ دیگر کلمہ حق کبھی یوں بھی ادا ہوجاتا اور انسان قہر و غضب کے مجسموں سے محفوظ بھی رہ جاتا ہے‘‘۔ 
’’جب تک دریاؤں میں پانی بہتا ہے، پہاڑوں کے سینے تنے ہوئے ہیں، سورج نکلتا ہے، ستارے چمکتے ہیں، چاند دمکتا ہے، ہوائیں چلتی ہیں، کائنات قائم ہے، خدا کا نام لیا ہی جائے گا، آزادی کی حفاظت کی جائے گی، جنگ کے دنوں میں ملک کی اور امن کے دنوں میں ضمیر کی زندہ قوموں کا یہی شعار رہا ہے کہ وہ دشمن سر پر ہو تواپنے ملک کی حفاظت کرتی ہیں اور زمانہ امن میں اپنے حقوق کی۔ ان کے حقوق کی بحالی کا نام ہی قومی آزادی ہے۔ انسان فانی ہے نہ کسی انسان کی مصیبت ہمیشہ رہتی ہے، نہ اقتدار‘‘۔ وما علینا الالبلاغ۔

مزیدخبریں