اہل بیت کا مقام و مرتبہ

اہل بیت نبی پاک ﷺ کے گھر والوں کو کہا جاتا ہے ۔اس کے بارے سب سے مقبول روایت حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی پاک ؐ آرام فرما رہے تھے کہ حضرت علیؓ،حضرت فاطمہ ؓ،امام حسین ؓ اور امام حسنؓ کو آپؐ نے اپنی چادر میں ساتھ لپٹا لیا اور فرمایا یہ میرے اہل بیت ہیں ۔حضرت علیؓ نبی پاک ؐ کے چچا زاد بھائی جنہوں نے صرف دس سال کی عمر اُس وقت آپؐ کی نبوت کا اقرار کیا جب قریش مکہ آپؐ کی جان کے دشمن بنے ہوئے تھے۔حضرت علی ؓ وہ کہ جنہیں حجرت کی رات نبیؐ اپنے بستر پر سونے اور صبح کفار کی امانتیں واپس کرکے مدینہ پہنچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔حضرت علی ؓ جنہیں فاتح خیبر کے نام سے جانا جاتا ہے ۔پھر آپ کی لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ،جنؓ کے بارے نبی پاک ؐ نے فرمایا تھا کہ فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہؓ کا دل دکھا یا اس نے میرا دل دکھایا۔امام حسن ؓ کے بارے نبی پاک ؐ نے فرمایا میرا یہ بیٹا سردار ہے جو مسلمانوں کے دو گرہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا ۔امام حسین ؓ کے بارے نبی پاکؐ نے فرمایا ’’حسین ؓ مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں‘‘یعنی حسین میری اولاد سے ہے اور قیامت تک میری آل حسین ؓ سے چلے گی۔
نبی پاکؐ کی آل کی فضیلت کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ ہر مسلمان جب نماز پڑھتا تو وہ اللہ سے دعا کرتا ہے کہ !یا اللہ! محمد اور آل محمد پر درود نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر درود نازل کیا، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔ یا اللہ! محمد اور آل محمد پر برکت نازل فرما جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بیشک تو تعریف کے لائق اور بزرگی والا ہے۔  بخاری۔اہل بیت کی شان قرآن پاک میں کچھ یوں بیا ن ہوتی ہے کہ ترجمہ!بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘اس آیہ کریمہ میں پروردگار نے پاکیزگی و طہارت کو اہل بیت کرام کی سب سے بڑی خوبی قرار دیا ہے۔ قلب و روح، فکرو خیال اور کردار و عمل کی پاکیزگی کو ان کی فطرت سلیمہ قرار دیا ۔
صحابی رسولؐ حضرت حزیفہ بن یمانؓ اپنی والدہ کی خدمت میں مصروف رہتے تھے ، ایک دن اپنی والدہ سے اجازت طلب کرتے ہوئے کہا اگر آپؓ مجھے اجازت دیں تو میں نبی پاکؐ کے پاس جاوں اور آپ کی اوراپنی بخشش کی دعا کے لیے عرض کروں۔ والدہ نے بخوشی اجازت دی ۔حضرت حزیفہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی پاک ؐ کے پیچھے نماز ادا کی اور  اس سے پہلے کہ میں اپنے دل کی بات عرض کرتا ،نبی ؐ اپنے ہجرہ کی طرف چل پڑے۔میں پیچھے چل پڑا،قدموں کی چاپ کو سنا تو نبی پاکؐ نے فرمایا!حزیفہ ہو!حضرت حزیفہ بولے جی یارسول اللہ۔ نبی پاک ؐ نے فرمایا اے حزیفہ’’اللہ تیری ماں کی اور تیری مغفرت کرے‘‘۔یعنی جس دعا کی درخواست کرنا تھی وہ بنا کہے مل گئی۔پھر نبی پاک ؐ نے فرمایا حزیفہ،ابھی میرے پاس اللہ کی طرف سے ایک ایسا فرشتہ آیا ہے جو اس سے پہلے کبھی زمین پر نازل نہیں ہوا ۔اُ س نے مجھے اللہ کا سلام پہنچایا ہے اور اللہ کی طرف سے یہ خوشخبری دی ہے کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ جاو اور میرے حبیب کو یہ خوشخبری سنادو کہ آپؐ کی صاحبزادی  فاطمہؓجنتی عورتوں کی سردار ہیں اور آپ کے نواسے حسنؓ اور حسینؓ جنتی جوانوں کے سردار ہوں گے۔حضرت فاطمۃ الزہرا ؓنہایت متقی، پرہیز گار اور دین دار خاتون تھیں۔ آپ کی زندگی کا تمام حصہ زہد و قناعت میں گزرا۔ آپ شرم وحیا کا مکمل پیکر تھیں۔حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ اللہ کے آخری رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’حسن ؓ اور حسینؓ میری دنیا کے دو پھول ہیں۔‘‘ (ترمذی)
صحابی رسول ؐحضرت بریدؓ فرماتے ہیں کہ حضور ؐ ہمارے سامنے خطبہ فرما رہے تھے کہ اچانک حسن ؓ اور حسینؓ آگئے ۔ وہ دونوں اتنے چھوٹے تھے کہ جب چلنے کی کوشش کرتے تھے تو بار بارگر پڑتے تھے۔ یہ دیکھ کر رسول مکرم ﷺ منبر سے اُترے، آپؐ نے کمال شفقت سے ان دونوں کو اپنی گود میں اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھالیا۔سیدہ ام فضل کہتی ہیں کہ ایک دن میں نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئی، حسین ؓ کو آپؐ کی گود میں دیا، پھر دوسری جانب دیکھنے لگی۔ میں نے دیکھا کہ رسول اکرم ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ہیں۔ میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسولؐ، میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں، کیا بات ہے؟
خاتم الانبیاءﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ابھی ابھی جبرائیل ؑ میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھے بتایا کہ عنقریب تمہاری امت تمہارے اس بیٹے (حسینؓ) کو قتل کردے گی۔ وہ میرے پاس اس جگہ کی مٹی بھی لائے تھے جہاں اس بچے کو قتل کیا جائے گا اور اس مٹی کا رنگ سرخ تھا۔‘‘ اور پھر ایسا ہی ہوا، دنیا نے دیکھا کہ رسول پاک ﷺ کے چہیتے نواسے حضرت امام حسینؓ کو کربلا کے میدان میں بڑی بے دردی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ حسینؓ بظاہر تو دنیا سے چلے گئے، مگر ساری دنیا کو جرأت و بہادری کا یہ درس دے گئے کہ ظالم کے سامنے حق بات کہنے سے کبھی نہ ڈرنا اور جسے غلط دیکھو یا جانو، اسے غلط کہنا۔واقعہ ء کربلا حق و باطل، نیکی و بدی، نور وظلمت، غلامی اور حریت کا سبق ہے ۔ دنیا کی تاریخ میں ایسی شجاعت و جرأت کا اظہار نہیں ہوا جس طرح امام حسینؓ اور ان کے رفقاء نے کیا۔ جب تک یہ دنیا باقی ہے حضرت امام حسین ؓ کی دین کے لیے دی گئی قربانی کو یاد کیا جاتا رہے گا ۔دنیا کو آج بھی کئی قسم کی یزدی طاقتوں کا سامنا ہے تو حسینؓ سے محبت و عقیدت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ ان طاقتوں کے سامنے جھکنے کی بجائے کلمہ حق کہنے کی کوشش کی جائے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن