پیر ‘ 8 محرم الحرام 1446ھ ‘ 15 جولائی 2024ء

کرکٹ ٹیم کے 3 کھلاڑیوں کے درمیان صلح صفائی کی کوشش۔ 
دو سا بق کرکٹرزکی یہ ایک اچھی کوشش ہے جو وہ کرنے لگے ہیں۔ کپتان بننے سے قبل بابراعظم،شاہین آفریدی اور محمد رضوان سب ٹیم کے ہی کھلاڑی تھے۔ اب ان تینوں کو باہمی گلے شکوے اور اختلافات دور کرنے کا کہا یا موقع دیاگیا ہے تو بہتر یہی ہے کہ یہ سب ذاتی اختلافات گلے شکوے بھلا کر صرف اور صرف اپنے ملک کے لیے کرکٹ ٹیم کے لیے سوچیں۔ اچھا کھیلیں اور اچھے ساتھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔ یوں گروپنگ کا خود ہی خاتمہ ہو گا۔ اطلاعات کے مطابق بابر اعظم، شاہین آفریدی اور محمد رضوان کی ایک ملاقات جلدکرائی جائے گی۔
 جس میں ان تینوں کو پرانی باتیں فراموش کر کے اچھے کھلاڑی اور دوست بن کر ساتھ چلنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ امید ہے اب یہ پھر یکجان ہو کر ملک کے لیے کھیلیں گے، انہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ اب حکومت اور عوام ان کی کوئی وضاحت قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے خیر اس میں ہے کہ ساری ٹیم متحد ہو کر کھیلے تاکہ کرکٹ کے میدانوں میں ایک بار پھر ہمارا نام گونجے ہمارا پرچم لہرائے جس طرح دو سابق بڑے کھلاڑیوں نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے وہ خوش آئیند ہے اس کا اچھا نتیجہ نکلے گا اسی طرح باقی کھلاڑی بھی مل جل کر کھیلیں۔ اب صرف کھلاڑی ہی نہیں کرکٹ بورڈ کے حکام بھی اپنا قبلہ درست کر لیں تاکہ سرجری ہو یانہ ہو کم از کم ٹیم اور کرکٹ بورڈ میں بھی اصلاح ہو اور سب کام خود ہی درست ہو جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر سرجری نہیں ایک میجر جنرل یا بڑا آپریشن ناگزیر ہو جائے گا۔ 
٭٭٭٭٭
50 لاکھ سر کی قیمت والا کچے کا ڈاکو ہلاک 3 ساتھی فرار 
کچے کے ڈاکوئوں کے حوالے سے آئے روز کوئی نہ کوئی خبر سننے یا پڑھنے کو ملتی رہتی ہے۔ آپریشن تو وہاں ایسے چل رہا ہے جیسے اس کا ڈاکوئوں سے جنم جنم کا پیار ہو۔ نہ پولیس کامیاب ہوتی ہے نہ ڈاکو وہاں ہار ماننے کو تیار ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ وہ ڈاکو نہایت فرحاں و شاداں ہیں۔ بھاری اور جدید اسلحہ سے لیس ڈاکو کسی فلمی سین کی طرح مغویوں پر تشدد کرتے اور بھاری تاوان طلب کرتے نظر آتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کو دعوت مبارزت دیتے نظر آتے ہیں کہ آ جائو دو دو ہاتھ کر لو۔ پولیس رینجرز دونوں ان سے دو دو ہاتھ کرتے ہوئے عرصہ دراز ہو گیا ہے۔ مگر کچے کا علاقہ ابھی بھی علاقہ غیر بنا ہوا ہے۔ چند روز قبل وہاں کے ڈاکو  متعدد افراد کو اغوا کر کے لے گئے اور بھاری تاوان طلب کر رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ان ڈاکوئوں کے سروں کی بھاری قیمت لگانے کے باوجود کوئی موٹی گردن والا فلمی ہیرو بنا ہوا بڑا ڈاکو ابھی تک قابو میں نہیں آیا نہ کیفر کردار تک پہنچا۔ ابھی گزشتہ روز 50 لاکھ روپے سر کی قیمت والا ایک مہنگا ڈاکو پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ چلیں یہ پولیس کی ایک کامیابی ہی ہے۔ مگر خبر سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کے ساتھ باقی 3 ڈاکو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ شاید ان کے سر کی قیمت نہیں لگی اب جب ان کے سر کی بھی قیمت لگے گی تو پولیس پھر ان کو بھی مار کر انعام وصول کرے گی۔ خدا جانے کتنے ڈاکو پولیس کے پاس ہی ہوں جنہیں مناسب وقت پر سامنے لا کر مار کر پولیس والے ترقی کی ریس میں حصہ لیں گے۔ ورنہ اتنے بڑے آپریشن کے بعد تو کچے سے ڈاکوئوں کا صفایا ہو جانا چاہیے۔ 
٭٭٭٭٭
دنیا کا ایسا ملک جہاں دن میں ایک مرتبہ ہنسنا کا قانون ہے 
ہمارے ہاں تو مسکرا کر دیکھنے سے ہی لوگ غلط سلط مطلب نکالتے ہیں۔ اس لیے مسکراتے ہوئے بھی سو بار سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں کوئی اس کا مطلب کچھ اور نہ لے لے۔ مگر جاپان ایک ایسا ملک ہے جہاں کے ایک علاقے یاگاماتا میں ماہرین صحت کی تحقیقات کے بعد کہ ہنسنے سے جسمانی اور ذہنی صحت بہتر ہوتی ہے۔ اس کے بعد یہ قانون نافذ کر دیا گیا ہے کہ دن میں ایک مرتبہ لازمی ہنسا جائے اسی طرح ہر ماہ کا آٹھواں دن یعنی ایک دن ہنسنے ہنسانے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ اس روز سب لوگ خوش نظر آتے ہیں۔ جاپان ایک خوشحال ترقی یافتہ ملک ہے۔ وہاں خوشیاں زیادہ اور غم ویسے ہی کم ہیں۔ اس کے باوجود وہاں خوشی اور ہنسنے کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں تو اگر کوئی بے وجہ ہنسے تو اسے احمق یا پاگل کہا جاتا ہے۔ اگر کوئی کسی بات پر لطیفے پر ہی زور دار قہقہہ لگائے تو اسے بدتمیز تک کہہ دیتے ہیں۔ کسی غیر سے مسکرا کر بات کرنا ویسے ہی پسند نہیں کیا جاتا۔ اجنبی سے مسکرا کر ملنا بات کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے تو اس جبر کے ماحول میں کون دل کھول کر ہنسے یا کسی سے ہنستے مسکراتے ہوئے بات کرے۔ ہمارے ہاں تو سچی مسکراہٹ کو نجانے کس کس کی نظر لگی ہے کہ کوئی سچی ہنسی ہنستا ہے نہ مسکراتا ہے۔ یہاں تو غم کے مارے جبراً مسکرانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اپنا غم چھپا سکیں۔ کاش ہمارے ہاں بھی دن میں ایک مرتبہ ہنسنے ہنسانے کا قانون نافذ ہو تو شاید ہماری جسمانی و ذہنی صحت پر بھی اچھا اثر پڑے مگر جب تک معاشی اور مالی حالات میں بہتری نہیں آتی اس وقت تک شاید ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔ 
٭٭٭٭٭
ورلڈ چیمپئن شپ لیجنڈ کے فائنل میں بھی پاکستان ٹیم ہار گئی 
وہی پرانی عادت۔ پرانا کوئی خوف یا نفسیاتی ڈر پاکستان کرکٹ ٹیم کے کھلاڑیوں میں رچ بس گیا ہے۔ جونہی بھارت کی کرکٹ ٹیم سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے رنگ فق ہو جاتا ہے۔ گلا سوکھنے لگتا ہے۔ آنکھوں تلے اندھیرا آ جاتا ہے اور کریز پر کھڑے رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی ٹک بھی جائے تو وہ ’’ٹک ٹک دیدم نہ کشیدم‘‘ والی کیفیت میں ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کھل کر کھیل ہی نہیں پا رہا۔ جو زیادہ جری کھلاڑی ہو وہ چوکے چھکے مارنے کی کوشش میں رہتا ہے یوں آئوٹ ہو جاتا ہے۔ نئی ٹیم کو تو چھوڑیں پرانے کرکٹ کے کھلاڑیوں کو ہی دیکھ لیں کیسے کیسے مردمیدان جو پورے ایونٹ میں صرف ایک میچ ہارے تھے فائنل میں اچانک ریت کے دیوار ثابت ہوئے۔ لگتا ہے پرانے کھلاڑیوں کے دلوں میں بھی یہی نفسیاتی دبائو باقی ہے۔ یا ہو سکتا ہے بھارتی کھلاڑی تانترک سادھوئوں سے کوئی کالا جادو کروا کے میدان میں آتے ہیں جس کی وجہ سے مخالف ٹیم کو کچھ نظر نہیں آتا اور وہ سدھ بدھ کھو بیٹھتے ہیں۔ اب یہی دیکھ لیں ورلڈ چیمپئن شپ آف لیجنڈ کے فائنل میچ میں پاکستانی ٹیم کیسے اچانک جی چھوڑ کر کھیلتی محسوس ہوئی۔ انہیں لیجنڈ کم بابے کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اب یہ ایک اور شکست کا سوگ بھی ہماری قوم منائے گی کہ اس کے سابق ہیروز کو کیا ہوا۔ وہ تو مردِ میدان کہلاتے تھے جو اب میں دل کو تسلی دینے کے لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ کھیل میں تو ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ 
 شکست فتح مقدرسے ہے ولے اے میر 
مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا 

ای پیپر دی نیشن