یہ امر کسی تعارف کا محتاج نہیں کہ 12جولائی کے حالیہ فیصلے نے ملک کی سیاسی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور اس خدشے کو قطعاً بے بنیاد قرار نہیں دیا جاسکتا کہ یہ پیش رفت ملک کی معاشی صورتحال کو بھی کسی حد تک متاثر کرئے۔حالانکہ وفاقی وزیر قانون نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں، ہمارے پاس اب بھی 209 اراکین کی اکثریت ہے اور آج بھی وہ سینیٹرز جو سپریم کورٹ کے فیصلے سے آزاد ڈکلئیر ہوئے وہ آزاد ہی درج ہیں، آزاد اراکین نے بغیر رغبت اور اپنی منشاء سے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل سے ہیں، آزاد اراکین نے خود لکھ کر دیا تھا کہ وہ آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے اور سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوتے ہیں۔انہوں نے اپنی بات مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ سماعت میں سامنے آیا کہ سنی اتحاد کونسل میں اقلیتیں شامل نہیں ہو سکتی تو شاید یہ راستہ بنایا گیاحالانکہ سپریم کورٹ میں کبھی 80 لوگ آکر کھڑے نہیں ہوئے کہ وہ پی ٹی آئی کے ہیں اور سنی اتحاد میں شامل کیوں ہونا پڑا، ان 80 اراکین نے کہا کہ وہ سنی اتحاد کونسل کے ہیں اور وہی ان کی شناخت ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ آئین کی تشریح عدالت کا اختیار تو ہے مگر اب بات آئینی تشریح سے آگے نکل گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 51 کو دوبارہ لکھا گیا ہے، بطور قانون کے طالب علم عدالت کے وقار کو مدنظر رکھوں گا، وفاقی حکومت اس پر اپیل کرے گی یا نہیں یہ فیصلہ کابینہ کرے گی اسی ضمن میں اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا اب تک سمجھ نہیں پایا کہ سپریم کورٹ نے کون سا دائرہ اختیار استعمال کیا، عدالت اس طرح سے آرٹیکل 187 کا اختیار استعمال تو نہیں کر سکتی، بادی النظر میں ابھی تک کے فیصلے میں وضاحت نہیں ہے اوراس فیصلے میں آئینی اور قانونی خامیاں ہیں کہ یہ زیر بحث رہے گا۔ان کا کہنا تھا سپریم کورٹ فیصلے کے مندرجات دیکھ رہے ہیں، مخصوص نشستوں سے متعلق قانون موجود ہے، نشستیں سنی اتحاد کونسل کو جانی چاہیے تھیں، کیس میں تو پی ٹی آئی فریق تھی ہی نہیں، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان نے جیتنے کے بعد کسی فورم سے رجوع نہیں کیا، سنی اتحاد کونسل کے منشور کے مطابق انھیں اقلیتی نشستیں نہیں ملنی چاہییں۔موصوف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے آزاد ارکان نے کبھی نہیں کہا کہ انکی جماعت کو مخصوص نشستیں دی جائیں، سنی اتحاد کونسل غیر مسلم کو اپنا رکن تسلیم نہیں کرتی، پی ٹی آئی کے آزاد ارکان کا مؤقف تھا کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہئیں، عدالتی فیصلے کے دائرہ اختیار کی کوئی مثال نہیں مل رہی، عدالتی فیصلے کے باعث ابہام اور سوالات نے جنم لیا ہے، پی ٹی آئی کو وہ ریلیف ملا ہے جوانھوں مانگا ہی نہیں۔اسی صورتحال کا جائزہ لیتے قانون اور انصاف کے اکثر ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ جس طرح سے بن مانگے اعلیٰ ترین عدلیہ نے پی ٹی آئی کو ریلیف فراہم کیا ہے اسے دیکھ کر سابق چیف جسٹس آف پاکستان جناب ارشاد حسن خان صاحب کی یاد تازہ ہوگئی ہے جب انہوں نے پرویز مشرف کی حکومت کو بنا مانگے مزید تین سال تک برسراقتدار رہنے کی اجازت فراہم کر دی تھی۔اسی تناظر میں ممتاز ماہر قانون حافظ احسان احمد کھوکھر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کی رائے ہے کہ موجودہ فیصلہ آئین کے آرٹیکل 51 اور 106 کے لازمی تقاضوں کی پاسداری کیے بغیر آئین کو نئے سرے سے لکھنے کے مترادف ہے۔انہو ں نے اسی ضمن میں مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 104 کو رول 92 کے ساتھ پڑھا گیا ہے، اور الیکشن رولز 2017 کا 94 کے ساتھ جس کے نتیجے میں سپریم کورٹ نہ صرف عدالتی حد سے تجاوز کر گئی ہے بلکہ آئینی حد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔یہاں اس امر کا تذکرہ بے جا نہ ہو گا کہ حافظ احسان کھوکھر انتہائی مدلل گفتگو کرتے ہیں اور نپے تلے انداز میں اپنے خیالات دلیل کیساتھ بیان کرتے ہیں اور غالبا کہا جاسکتا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں قانون کے شعبے میں ایک بہترین اضافہ ثابت ہونگے۔دوسری جانب یہ امر بھی پیش نظر رہے تو بیجا نہ ہوگا کہ بلاشبہ عمران خان ایک اچھے کھلاڑی اور جسمانی وجاہت کی حامل شخصیت ہیں اس کے علاوہ موصوف شوشل میڈیا کے موثر استعمال سے بخوبی آگاہ ہیں جس کی وجہ سے انہیں بے پناہ مقبولیت ملی مگر اپنی حکومت کے دوران وہ عملی طور پر کوئی ایک بھی کام نہیں کر سکے اور ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر کے وعدے بھی محض ریت کی دیوار ثابت ہوئے گویا
تیرے وعدے پر جیے جو
یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے
اگر اعتبار ہوتا