یہ درست ہے کہ یہاں ہر دور میں کرپشن اور بدعنوانی کے سد باب کے لیے ادارے بنائے گئے۔پاکستان میں ہمیشہ تاثر بنا کہ ’’سیاستدان ‘‘بد عنوان اور کرپٹ ہیں ۔اس طرح سرکاری ملازمین اور کاروباری لوگوں کے بارے میں بھی تصور ایسا ہی ہے ۔اللہ سبحان تعالیٰ کا فرمان بھی ہے کہ ’’برائی کا سد باب ہونا چاہیے ‘‘ اس لیے نفرت جرم سے ہونی چاہیے ۔اسی طرح ’’ملزم ‘‘اور ’’مجرم ‘‘میں بھی فرق ہوتا ہے ۔ایک نقطہ نے محرم سے مجرم بنا دیا ۔گزشتہ دنوں ایک خبر نے چونکا دیا اور خوشگوار حیرت بھی ہو ئی ۔کہتے ہیں کہ ’’خدا جب حسن دیتا ہے تو نزاکت آ ہی جاتی ہے ‘‘اسی طرح جب اختیار اور اقتدار ملتے ہیں تو تکبر اور اکڑ آجاتی ہے ۔مگر چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ نذیراحمد بٹ کے حوالے سے خبر تھی کہ مئی 2024 کو نیب کے آفس سے ایک برگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کی بیوہ کو فون کال آتی ہے کہ ان کے شوہر جنہوں نے نیب کی تفتیش اور تحقیقات کے دوران خودکشی کر لی تھی ۔چیئرمین نیب تعزیت کے لیے ان کے گھر آنا چاہتے ہیں ۔مرحوم برگیڈیئر اسد منیر جیسے مضبوط اعصاب کے حامل اور فوجی بیک گراؤنڈ والے ،کن اور کیسے حالات میں اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور مرنے سے قبل نوٹ لکھا کہ کیوں اور کیسے نیب کی تحقیقات اور تفتیش کی وجہ سے اپنی زندگی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ۔چیئرمین نیب کی جانب سے اسد منیر کی قبر پر پھول بھی رکھے گئے ۔چیئرمین نیب شریف نفس انسان ہیں ۔نیب میں اصلاحات کے متمنی ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ ایسے کیا حالات تھے کہ صرف انکوائری کی سطح پر ایک برگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر جو کہ سی ڈی اے میں اہم پوسٹ پر تھے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔چیئرمین نیب پھر متاثرہ فیملی کو بھی ملے حالانکہ انکی وفات کے تین سال کے بعد اسد منیر صاحب بے گناہ قرار پائے ۔ لواحقین یقینا کہتے ہوں گے ’’کہ وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کر یں؟‘‘اس طرح چیئرمین نیب خواہشمند ہیں کہ لاہور جا کر ایک وائس چانسلر سے بھی ملاقات کریں جن کی ہتھکڑی کے ساتھ اخبار میں تصویر شائع ہوئی تھی۔ آج جب نیب میں بہتری کے لیے اصطلاحات ہونے ہونے جا رہی ہیں ہیں قانون سازی کا عمل جاری ہے پاکستان کے کاروباری لوگوں نے سابقہ ادوار میں اور موجودہ آرمی چیف سے بھی درخواست کی تھی کہ پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری کے لیے تیار نہیں ہے وہ انویسٹمنٹ بھی کرتے ہیں اور تحقیقات کا شکار بھی ہوتے ہیں ۔خاص طور پر سرکاری ملازمین اس کا شکار رہتے ہیں ۔ ساری دنیا میں کرپشن پر سزا اور جزا کا عمل بھی ہے ۔چین میں تو بدعنوانی کرپشن پر سزائے موت ہے مگر دنیا میں سب سے زیادہ کاروبار سرمایہ کاری چین میں بیرون ممالک سے آتی ہے ۔غیر مسلم اور بدھ مت کے ماننے والے بھی چوری بدعنوانی کرپشن کو بڑا جرم سمجھتے ہیں مگر جو کیفیت خوف و ہراس کی پاکستان میں ہے وہ کہیں بھی نہیں ہے ۔
آج اگر ایک اچھی شہرت کے حامل شریف النفس شخص چیئرمین نیب آگئے ہیں ،جنہوں نے اپنے ادارے میں بہتر اور اچھے اقدامات کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے اس کی ساکھ کو بہتر کرنے کے لیے کچھ بہتر کرنا چاہتے ہیں وہ آج یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ایسے کیا حالات تھے کہ ایک اچھی شہرت اور فوج کے ادارے سے وابستہ شخص کو انکوائری تحقیقات کے مرحلے میں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور خودکشی کی ۔چیئرمین نیب نہ صرف اس متاثرہ خاندان سے ملے ان کے گھر گئے مرحوم کی قبر پر پھول رکھے بلکہ وہ حالات جاننا چاہتے ہیں تاکہ ان کا آئندہ سدباب ہو سکے اور ایسے ایس او پیز بنائے کہ ملزم اور مجرم کا فرق نظر آئے ۔یقینا اداروں کی ساکھ بہتر کرنا ہر سربراہی کی ذمہ داری ہے اس طرح لاہور کی ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے گھر بھی جانا چاہتے ہیں جن کی دوران حراست ہتھکڑی والی تصویر میڈیا پر آئی ۔ دعا ہے کہ چیئرمین نیب کرپشن فری پاکستان ضرور بنائیں مگر بے گناہوں کو بلاوجہ تنگ نہ کریں اس طرح نیب کے قوانین میں بہتر اور اچھی تبدیلی لائیں ۔لوگوں میں اس ادارے کا بہتر اور حقیقی احتساب کا تصور بحال ہو پاکستان میں ایسے کم مثالیں ملتی ہیں ۔جیسے جنرل بذیر احمد بٹ قائم کر رہے ہیں ۔میری گزارش ہے چیئرمین نیب صاحب سے کے آج پاکستان اقتصادی بدحالی کا شکار ہے ہوف و ہراس اور کرپشن فری پاکستان دو الگ چیزیں ہیں جہاں آپ ادارے کی بہتری خوف کی کیفیت ختم کرنا انصاف کے تقاضے مکمل کرنا ہے وہاں پاکستان کی معیشت اور اقتصادی ترقی میں کاروباری افراد صنعت کار امپورٹر اور ایکسپورٹر کے اعتماد کے لیے فیڈریشن اف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری پاکستان کے چیمبرز خاص طور پر اسلام اباد چیمبر آف کامرس کے اراکین سے بھی مشاورت اور ملاقات کا اہتمام ہونا چاہیے ۔یقینا نیب کا دائرہ کار سرکاری اداروں سیاسی شخصیت کے حوالے سے ہے مگر کاروباری لوگوں کو بھی بے شمار مشکلات اور تکالیف ہیں ان کی مدد کے لیے بھی خصوصی خصوصی ڈیسک بنائیں ۔اس طرح اوورسیز پاکستانیوں کی دادرسی کے لیے بھی کوئی ڈیسک ہونا چاہیے عوام الناس سول سوسائٹی سکول کالج میڈیا میں کرپشن فری پاکستان کے مہم جاری رکھنی چاہیے ۔