پاکستان سپریم کورٹ کی 13 رکنی فل کورٹ نے پاکستان الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے مخصوص نشستوں کے متعلق فیصلے کو کالعدم اور تحریک انصاف کو آئینی سیاسی جماعت قرار دیتے ہوئے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خواتین اور اقلیتوں کی 77 مخصوص نشستیں دینے کا حکم دیا ہے ،جس کے بعد تحریک انصاف قومی اسمبلی کی سب سے بڑی جماعت بن جائے گی ۔سپریم کورٹ نے مئی میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا اور اب سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ ارکان اپنی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے ۔واضح رہے کہ حکمران اتحاد کے پاس حکومت بنانے کے لیے اکثریت نہیں تھی مگر الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں حکمران اتحاد میں تقسیم کرنے سے اسے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت مل گئی تھی جو کہ اب نہیں رہے گی ۔بایں وجہ حکومتی حلقوں کی جانب سے اس فیصلے پر شدید تنقید اور لفظی گولہ باری جاری ہے ۔یہ بھی خوش آئین ہے کہ عمران خان اور بشری بی بی عدت کیس سے بھی باعزت بری ہوچکے ہیں بلاشبہ ’’عدت کیس‘‘ پاکستان کی انتقامی سیاست کا سیاہ باب تھا جوبند ہوگیا ہے لیکن انھیں رہا نہیں کیا گیا کہ’ ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں‘‘ رہائی کے بعد مزید مقدمات میںدھر لیے گئے ہیںحالانکہ یہ آخری کیس تھا!
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ جو بھی نا انصافی ہوئی اس کی وجہ وہ خود تھے کیونکہ انھوں نے حوصلوں کو اتنا بلند کر لیا تھا کہ اداروں کوہی ناراض کر بیٹھے تھے لہذا جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہوا یا ہورہا ہے اسی دادا گیری کا ردعمل ہے۔ جس میں پہلے پارٹی نشان چھین لیا گیا اور پھرمخصوص نشستوں کی بندر بانٹ کی گئی جس کے خلاف پی ٹی آئی اراکین سراپا احتجاج اور ثابت قدم رہے ۔ آئینی ناکامی کے بعد تحریک انصاف کے کامیاب اور حمایت یافتہ ارکان نے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ پارلیمانی اتحاد کر لیا تھا جسے الیکشن کمیشن نے بخوشی مان لیا تھا مگر مخصوص نشستیں پھر بھی نہیں دی تھیں ۔سنی اتحادیکونسل کے مجموعی ارکان کی تعداد 84جبکہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان ملا کر یہ تعداد 92 تھی جو کہ اب مخصوص نشستیں ملنے کے بعد 115 ہو جائے گی ۔اس طرح تحریک انصاف قومی اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ سینٹ میں بھی سنگل لارجسٹ پارٹی بن سکتی ہے کیونکہ اس وقت سینٹ میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد 20 ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 24 ہے اور کے پی کے میں ابھی انتخابات نہیں ہوئے ۔سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں خیبر پختونخواہ میں کل 30 مخصوص نشستیں ہیں ان میں سے 25 پی ٹی آئی کومل سکتی ہیں جس کے بعد کے پی کے اسمبلی میں پی ٹی آئی اراکین کی تعداد 115 تک پہنچ جائے گی۔امید کی جا رہی ہے کہ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد 11 سینٹیز کی خالی نشستوں میں سے نو پی ٹی آئی آسانی سے جیت سکتی ہے جس کے بعد سینٹ میں بھی پی ٹی آئی اراکین کی تعداد 29 تک پہنچ جائے گی اور اس طرح پی ٹی آئی سینٹ میں بھی بڑی جماعت بن جائے گی کیونکہ سپریم کورٹ کے حکم پر عملدرآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے تمام مخصوص سیٹیں معطل کر دی ہیں ۔آگے دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے درحقیقت فیصلہ واضح کر رہا ہے کہ تحریک انصاف ایک بڑی سیاسی جماعت تھی مگر الیکشن کمیشن نے ذاتی عنادمیں اس کی حیثیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھاتو ایسے میں امیدواروں کا کیا قصور ہے جنھوں نے پی ٹی آئی کے بینر تلے الیکشن لڑا ۔۔بائیں وجہ حکمران اتحاد سپریم کورٹ کے فیصلے پر سخت ردعمل دے رہا ہے اور ہنگامے بھی کروا رہے ہیں کیونکہ اقتدار کی نائو گرداب میں پھنس چکی ہے ۔ زرداری صاحب کا بیان بھی الارمنگ ہے کہ اگر ہم حکومتیں بنا سکتے ہیں تو گرا بھی سکتے ہیںیقینا پیپلز پارٹی دونوں اطراف کھیلنے کی ماہر ہے لیکن اگر ہوا کا رخ بدل چکا ہے اور اس تناظر میںپیپلز پارٹی تحریک انصاف کے جھنڈے تلے چلی جاتی ہے تو شہباز حکومت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ویسے خدا لگتی کہوں تو اعلیٰ عدلیہ کو بھی سخت فیصلہ لیتے ہوئے 8 فروری کے الیکشن کو کالعدم قرار دے دینا چاہیے کیونکہ آج سوال اٹھ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ فیصلے کے حکومت پر کیا اثرات ہونگے ؟ کیا عدلیہ کے فیصلے پر عمل ہوگا ؟ کیا الیکشن کمیشن اپنی غلطی تسلیم کرے گا ؟ حکومتی ناقص حکمت عملیوں کی صلیب پر جھولتے عوام کی فریاد کوئی سنے گا؟یہی خاموش آہیں تو لے ڈوبی ہیں ’’ایک آنسو بھی حکومت کے لیے خطرہ ہے ، تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ہونا ‘‘!
بہرحال ہمیں ماننا ہوگا کہ الیکشن کمیشن متنازع ہو چکا ہے کیونکہ سبھی سیاسی جماعتوں کے ترجمان کہیں در پردہ اور کہیں برملا کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان کی پوری پارلیمانی تاریخ میں ایسے متنازع انتخابات ، سیٹیوں اور عہدوں کی بندر بانٹ نہیں دیکھی گئی جو کہ حالیہ عام انتخابات میں ہوئی ہے ۔ عوام کے فیصلے کو نہیں مانا گیا اور ہارنے والے امیدواروں کو فارم 47 پر جیت کے سرٹیفکیٹ بانٹ دیے گئے اور سپریم کورٹ کے فیصلے نے ان الزامات پر مہر لگا دی ہے تو ا گر حلقے کھلنا شروع ہو گئے جو کہ ضرور ہونگے پھر مزید رسوائی ہوگی اس لیے بہتر یہی ہے کہ’’ جو بچے ہیں سنگ وہ سمیٹ لو ‘‘ چیف الیکشن کمیشن مان جائے کہ وہ شفاف الیکشن کروانے میں ناکام ہو چکے ہیں ۔ باقی رہ گئی حکومت اور سیٹیں تو تحریک انصاف کے ترجمان کہہ رہے ہیں کہ ہم نے صرف قانونی جنگ جیتی ہے ابھی سیاسی جنگ جیتنا باقی ہے یقینا اس فیصلے سے حکومتی عہدوں پر فرق نہیں پڑے گا لیکن حکومت کمزور ہو جائے گی اور سیاسی عدم استحکام میں ہی اضافہ نہیں ہوگا بلکہ عوام میں بھی عدم اعتماد کی فضا پھیل جائے گی کیونکہ عوام پہلے ہی سبھی سیاسی بازیگروں سے متنفر ہو چکے ہیں اس پر حکومت نے ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار کر رکھی ہے جبکہ نہ آمدن ہے اور نہ ہی روزگار تو حالات پھر وہیں پر آجائیں گے جہاں حالیہ انتخابات سے پہلے تھے اس لیے اعلیٰ عدلیہ کو چاہیے کہ متنازع حلقوں سمیت عوام پر ناجائز ٹیکسوں کی بھرمار اور منہ زور مہنگائی کا بھی نوٹس لیں کیونکہ اشرافیہ کو ہر طرح سے پر آسائش زندگی حاصل ہے جبکہ انتقامی سیاست عوام کے لیے سزا بن چکی ہے اس لیے ایسے فیصلے لیں جن سے ملک و قوم کو دور رس نتائج حاصل ہوں یعنی عام آدمی کی فریاد سنی جائے ‘ عوام کو ریلیف ملے ‘ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا خاتمہ ہو ‘ بلاتفریق احتساب ہو اور یہ نوشتہ دیوار ہے کہ ملکی استحکام اور سالمیت عوام الناس کی کالیں سننے میں نہیں بلکہ تنازعات کے حل میں ہے ۔۔