ہم نے حماس کی ترامیم کو قبول نہیں کیا: اسرائیل، غزہ جنگ بندی کے تین مراحل

غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے حوالے سے مذاکرات کی صورت حال ابر آلود ہے۔ اسرائیل کی ایک نئی رپورٹ میں امریکی صدر جو بائیڈن کی طرف سے اعلان کردہ اور ثالثوں کی طرف سے حماس کو 27 مئی کو پیش کی گئی اسرائیلی تجویز کا مکمل متن سامنے آگیا۔ اس متن کے سامنے آنے کے بعد تل ابیب نے اپنے رد عمل کا اظہار کردیا ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر کے مشیر دیمتری گینڈل مین نے کہا ہے کہ تل ابیب غزہ پر معاہدے کے لیے پر عزم ہے۔ ’’ٹاس‘‘ کے مطابق انہوں نے اعلان کیا کہ حماس نے غزہ معاہدے میں 29 تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی ہے اور نیتن یاہو نے ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔ جہاں تک بات چیت کے اگلے مرحلے کا تعلق ہے گینڈل مین نے کہا ہے حماس کو یہ معاملہ اس وقت اٹھانا چاہیے جب وہ اس معاہدے کی تمام شرائط کو قبول کر لے۔گینڈل مین کے مطابق اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کی شرائط میں اس کے تمام اہداف حاصل ہونے تک جنگ جاری رکھنے کا حق، جزیرہ نما سینائی سے ہتھیاروں کی سمگلنگ کو روکنا، معاہدے کے پہلے مرحلے میں ممکنہ طور پر سب سے زیادہ زندہ قیدیوں کی واپسی اور غزہ کی پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کی واپسی کو روکنا شامل ہے۔ ٹائمز آف اسرائیل اخبار کے مطابق یہ سب اس وقت سامنے آیا ہے جب امریکی تجویز میں مذکور تین مراحل کا انکشاف ہوا ہے۔

تین مراحل
یہ واضح ہو گیا ہے کہ یہ متن اسرائیل اور حماس کے درمیان یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے اور پائیدار امن کی بحالی کے حوالے سے طے پانے والے عمومی اصولوں پر مشتمل ہے۔ قطر، مصر اور امریکہ اس معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔یہ تجویز 3 مرحلوں پر مشتمل ہے، ہر مرحلہ 42 دن تک جاری رہے گا۔ اس کا مقصد غزہ کی پٹی میں تمام اسرائیلی سویلین اور فوجی قیدیوں کو، زندہ ہوں یا مردہ، رہا کرنا ہے۔ ان کے بدلے میں ان فلسطینی قیدیوں کی ایک متفقہ تعداد کو اسرائیل رہا کرے گا۔ یہ تجویز پائیدار امن کو بحال کرنے کی بھی کوشش کرتی ہے جس سے ایک مستقل جنگ بندی، غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کا انخلا، تعمیر نو، سرحدی گزرگاہوں کو کھولنا اور لوگوں کی نقل و حرکت میں سہولت فراہم کرنا شامل ہے۔

ای پیپر دی نیشن