چيف جسٹس کی سربراہی ميں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سپیکر کی رولنگ کیخلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ وزیراعظم کے وکیل نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے سماعت کے لیےلارجر بینچ تشکيل دينے کی استدعا کی ، انہوں نے کہاکہ اسپيکر اسمبلی کا کام ڈاک خانے کا نہيں ہوتا وہ اپنا حق استعمال کرسکتا ہے، وزيراعظم کو سزا کا مطلب نااہلی ہر گزنہيں، چيف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے اپيل نہ کرکے عدالتی فيصلہ قبول کرليا ہے، وزیراعظم کے وکیل نے کہاکہ ہم نےسزاقبول کی ہے نااہلی قبول نہيں کی کيونکہ وزيراعظم نااہل نہيں ہوئے، چيف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وزيراعظم سزا يافتہ ہيں، آپ اپيل کے دلائل دے رہے ہيں، بہترہوتا کہ آپ اپيل ہی کرليتے، یوسف رضا گیلانی کے وکیل نے کہاکہ وزيراعظم نااہل ہوتے تو ہی اپيل کی جاتی، ميں اسپيکر کے آرڈر کا دفاع کرنے آيا ہوں،وزيراعظم کی خودبخود نااہلی نہيں ہوئی، سات رکنی بنچ نے غير معروضی رويہ اپنايا، اس پر چيف جسٹس نے انہيں ججوں کے بارے ميں ايسے الفاظ استعمال کرنے سے منع کیا۔ وزیراعظم کے وکیل کا کہنا تھا کہ سزا کے خلاف اپيل نہ کرنے سے کيس کی کارروائی پر اثر نہيں ہوتا،چيف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ نکتہ نوٹ نہيں کريں گے کيونکہ اس کا موجودہ معاملے سے تعلق نہيں، اعتزاز احسن نے کہاکہ عدالت تقسيم اختيارات کے اصول کو مدنظر رکھے،چيف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ اس نکتہ کا حوالے دے رہے ہيں جو انتخابی اميدوار کی نااہلی سے متعلق ہے، وکیل وزیراعظم نے کہا کہ دو سال سے زائد سزا پر ہی ممبر اسمبلی نااہل ہوتا ہے، تیس سيکنڈ سزا پر نہيں، چيف جسٹس نےریمارکس دیے کہ کيا آپ کہہ رہے ہيں کہ کرپشن پر ایک سال سزا ہو وہ جيل بھيج ديا جائے ، وہ کرپٹ بھی ہو تو وہ وزيراعظم رہے گا؟آئين کيسے کہہ سکتا ہے کہ اڈيالہ جيل ميں بيٹھ کر بھی وہ وزيراعظم رہے گا، وکیل وزیراعظم نے کہاکہ يہ ميں نہيں آئين کہہ رہا ہے.بعد ازاں عدالت نے وزیراعظم کے وکیل کو پیر تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔