چیف جسٹس آف پاکستان کی زیرصدارت فل کورٹ اجلاس میں ملک ریاض کے پلانٹڈ انٹرویو کا جائزہ لینے کے لئے دو رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی، چیئرمین پیمرا سے تفصیلی رپورٹ طلب۔

اسلام آباد میں چیف جسٹس کی سربراہی میں ہونے والے فل کورٹ اجلاس میں سپریم کورٹ کے تمام جج صاحبان نے شرکت کی۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کے نوٹس پر چیئرمین پیمرا کی جانب سے نجی ٹی وی چینل کی عدلیہ مخالف پروگرام کی فوٹیج فل کورٹ میٹنگ میں دکھائی گئی جس پر تمام ججز نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ میڈیا کی جانب سے عدلیہ کے خلاف کیا کیا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین پیمرا نے بتایا کہ خلاف قانون کام کرنے والے چینلزکونوٹس جاری کرنے کے علاوہ لائسنس منسوخ کئے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ کے معاملے پر پارلیمنٹ میں بھی بات نہیں ہو سکتی اور اس فوٹیج کے بعد عدلیہ کےخلاف ہونے والی سازش بے نقاب ہوئی ہے،عدلیہ کے خلاف مسلسل پراپیگنڈا کیا جا رہا تھا۔ چیف جسٹس نے چیئرمین پیمرا کو کہا کہ ٹی وی پرکیا ہو رہا ہے،کیا اس انٹرویومیں کوئی خلاف ورزی نہیں ہوئی؟ انہوں نے استفسار کیا کہ دن رات عدلیہ کو بدنام کیاجا رہا ہے، پیمرا کیا کر رہا ہے۔ میٹنگ کے شرکاء نے عدلیہ مخالف پروگرام کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی پر اتفاق رائے کیا۔ تمام ججز کا موقف تھا کہ ایسے عناصر کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے جو عدلیہ کےخلاف بے بنیاد الزامات پر گھناؤنی سازشوں کا حصہ بنتے ہیں۔ کارروائی کے ذریعے مستقبل میں ایسے اقدامات کو روکنے پر بھی تمام ججز نے اتفاق کیا۔ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق میڈیا سکینڈل کی انکوائری سے متعلق جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس عارف خلجی پر مشتمل دو رکنی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔فل کورٹ نے چیئرمین پیمرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ میڈیا سکینڈل سے متعلق تفصیلی رپورٹ کمیٹی کو پیش کریں کمیٹی رپورٹ کا جائزہ لے کر آئندہ کی حکمت عملی طے کرے گی۔ فل کورٹ اجلاس میں بتایا گیا کہ گزشتہ چھ ماہ میں آٹھ ہزار دو سو سترہ نئے کیسزرجسٹر ہوئے جبکہ سات ہزار پانچ سو اڑسٹھ نمٹائے گئے ہیں۔فل کورٹ نے سپریم کورٹ میں کیسز نمٹانے کی رفتار پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کارکردگی کو مزید بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ۔

ای پیپر دی نیشن