عام انتخابات کا نتیجہ ایسا نکلا کہ ہر طرف اطمینان کا سانس لیا گیا!! وہ جو کہتے پھر رہے تھے کہ عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کو منہ کی کھانا پڑے گی!! وہ اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ اپنے شیخ صاحب کے بھی کافی تجزئیے غلط ثابت ہوئے لیکن خدا کا شکر ہے وہ ایک مرتبہ پھر قومی اسمبلی کے رکن بن گئے۔ معلوم نہیں اب ان کے وزیر بننے کی ماضی کی طرح کس طرف سے سفارش آتی ہے۔ اچھا ہوا کہ وہ ممبر قومی اسمبلی بن گئے ورنہ تو یہی کہا جا سکتا تھا کہ
تھمے جو بارش تو لوگ دیکھیں چھتوں پہ چڑھ کے دھنک کا منظر
میں اپنا دل اجاڑ پاﺅں تمام عالم اجاڑ دیکھوں
مگر قارئین! ان انتخابات میں مجھ ناچیز کی دعائیں بھی رنگ لائیں اور سنیٹر پرویز رشید جیسے میرے پرانے دوست وزیر اطلاعات بن گئے۔ خدا کا شکر ہے زندگی میں ایک بار ہی نہیں کافی مرتبہ ایسا ہوا کہ پوری حکومتیں بے شک اپنی پسند کی نہ آئیں پھر بھی وزیر اطلاعات اکثر پسند کے آئے جن میں راجہ محمد ظفرالحق، مشاہد حسین سید اور برادرم محمد علی درانی جیسے بہت سے پیارے بلکہ جن سے پیار کرنے پر جی چاہتا ہے وہ آئے اور چھا گئے۔ اب کی بار بھی سنیٹر پرویز رشید کی پرواز ایسی ہے جس پر کافی قوتوں کے دل کو تشفی نہیں ہو رہی! جن کے بارے میں ڈاکٹر محمد اجمل نیازی اکثر ”وزیر شذیر“ کا لفظ استعمال کرتے ہیں مگر ہم تو اب کی بار یہ ضرور کہیں گے کہ
تیرا آنا مبارک ہوا ساقیا
دیکھ آسماں پہ بادل چھانے لگے
جناب پرویز رشید سے ہمارا ذاتی طور پر نیازمندانہ تعلق بڑا پرانا ہے اسی سبب جب 12 اکتوبر 1999ءکو پاکستان اور نظریہ پاکستان کے مخالفوں نے اندھیر مچایا تو راقم اسلام آباد میں ہی موجود تھا جن جن محب وطن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ان سے رابطہ کرنے کا کوئی موقع ہم نے ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ جن میں راجہ ظفرالحق، جناب پرویز رشید، مشاہد حسین سید سمیت کافی احباب شامل تھے۔
جناب پرویز رشید کو سنیٹر ہونے کے سبب کئی صعوبتوں، تکلیفوں کے بعد پارلیمنٹ لاجز میں رہنے کا حق مل گیا تو ہم بھی وہاں پہنچے۔ تب بے شک ہم جناب پرویز رشید کے لئے پھولوں کا گلدستہ نہ لے جا سکے البتہ 12 اکتوبر کے بعد کے اردو اخبارات کی فائل ضرور لے گئے تھے جہاں ہم نے دیکھا کہ وہ درد سے ضرور کراہ رہے ہیں لیکن ہمت کی کمی قطعاً نہیں تھی۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ان حالات میں مردِ مجید جناب مجید نظامری نے جناب مشاہد حسین سید کے مشکل حالات میں یہ تک پیشکش کی تھی کہ ہمارے گھر شفٹ ہو جائیں۔ اب نظامی صاحب نے آخر یہ پیشکش کیوں کی اس پر اتنا کہہ دینا ہی کافی ہو گا کہ مشاہد حسین سید کے والد محترم کرنل (ر) امجد حسین بھی جناب حمید نظامی کے لاہور آنے اور حصول علم کے لئے ان کے ساتھی ہمدم بن کر ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات سے کماحقہ آگاہ ہوئے تھے۔ یہ دونوں دوست حضرت علامہ اقبال کے سبب ہی مسلم لیگ کے ایک اجتماع میں شریک ہوئے تھے جس کی تفصیل پھر کبھی بیان کریں گے!
اب جب 16وزیروں 9 وزرائے مملکت اور 25 رکنی کابینہ نے اپنا کام شروع کر دیا ہے تو ان حالات میں شاید وزارت اطلاعات کی ذمے داری زیادہ اہمیت اختیار کر جائے گی اور جس شخص کو وزارت اطلاعات کا قلمدان سونپا گیا ہے اس سے اپنے دیرینہ تعلقات اور راہ و رسم کے باوجود یہ ضرور کہیں گے کہ سب سے زیادہ کام وزیر اطلاعات کو پاکستان جیسے نظریاتی ملک میں کرنا پڑتا ہے! نظریاتی ملک میں وزیر اطلاعات کی جو ذمے داریاں ہوتی ہوں جناب پرویز رشید ان سے پہلے ہی آگاہ اور باخبر ہوں گے!
بس ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ ذمے داریاں نبھانے کے لئے وزیر اطلاعات کو نوائے وقت کے قاری کی طرح محب وطن اور متعصب پاکستانی ہونے کا تاثر دینا ہو گا بلکہ بننا ہو گا .... اور یہ اعلان کرنا ہو گا کہ
”پاکستان ہے تو ہم ہیں!!“
اس لئے جناب پرویز رشید کی پرواز پر خوش آمدید کہے بغیر کوئی چارہ نہیں! جو الحمداللہ خوش آمد نہیں ہے!!