برپا ہے بزم یار میں اک حشر آرزو
اظہار شوق کی جو اجازت ہے آجکل
اور کم از کم آج کل تو اظہار شوق میں سخن کا موضوع ایک ہی بات رہے گی اور وہ ہے ”بجٹ 2013“ .... ہر سال کے بجٹ میں ہی ایسا ہوتا ہے کہ اگر کہیں تھوڑی سی خوشی بانٹنے کی کوشش کی جاتی ہے تو بہت ساری آرزو¶ں کے حشر میں دکھائی نہیں دیتیں۔ اس بجٹ میں بھی ودہولڈنگ ٹیکس کا دائرہ وسیع کیا گیا اور جہاں تاجروں اور آڑھتیوں پر ایک فیصد ٹیکس عائد کیا گیا وہاں گرمی کے موسم میں ٹھنڈے مشروبات پینا بھی اتنا آسان نہیں رہا اور نہ ہی برسات میں روائتی تلے ہوئے پکوانوں کی مزیدار ڈشیں بن سکیں گی کیونکہ چینی کے ساتھ ساتھ تیل اور گھی کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گیا۔ مگر اس ساری صورتحال میں چھالیہ‘ سگریٹ ‘ پان‘ بیڑی والے بھی کافی مشکل میں ہیں اور خصوصاً جن لوگوں کی عقل کا تالہ پان سے کھلتا تھا اب نہ جانے عقل کا تالہ کیسے کھلے گا۔ کہتے ہیں کہ 1950ءکی دہائی میں بنگالی سیاستدانوں کو خوش کرنے کے لئے مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان میں درآمد کیلئے پان کے چند ٹوکرے روزانہ منگوانے کا پرمٹ دیا گیا تھا اس پر کسی نے یہ فقرہ چست کیا تھا
برگ سبزاست تحفہ درویش
لیکن یہ سچ ہے کہ ٹیکس دینے پر کوئی بھی خوشی خوشی راضی نہیں ہوتا البتہ سہولیات سب کو ہی اچھی لگتی ہیں۔ اس سے پہلے کئی برسوں کے بجٹ جب بھی پیش ہوئے عوام کو اپنی مشکلات بڑھتی ہوئی ہی نظر آئیں اور عوام کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا۔ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی آخر میں ورثے میں ملی ہوئی ٹوٹی پھوٹی معیشت اور پھر قائد و اقبال کا بھی ذکر کیا جس کا مطلب تھا کہ قوم یکجا ہو کر مشکلات کو برداشت کرے اور پاکستانی قوم کو یکجا ہو کر تکالیف برداشت کرنے پر تیار بھی ہو جاتی ہے۔ بشرطیکہ قیادت کے ساتھ اچھی توقعات وابستہ ہوں کہ حکمران شب و روز کی محنت اور پھر اپنے شاہانہ اخراجات کو کم کر کے قوم کے لئے کچھ کرنے کا سوچ تو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے اور وزراءکے اخراجات کو کم کرنے اور پھر شہباز شریف کے میٹرو بس میں سفر کرنے کی مثالیں خوش آئند ہیں۔ حکمرانوں کو دیکھ کر یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ اپنی غریب عوام کے لیڈرہیں نا کہ وہ کسی بادشاہ سلامت کی اولاد دکھائی دے رہے ہوں۔ کیونکہ ملک کی مشکلات اور مشکل صورتحال میں لیڈروں کا بھی قربانیاں دینا فرض ہے ورنہ فرق بڑھتا جائے تو عوام لاہور کے معروف ریاضی کے پروفیسر خواجہ دل محمد کی طرح ”ٹیکس“ پر یوں کہہ اٹھتے ہیں کہ :
ٹیکس پانی پر نہیں کافی تو پھر مشکل ہے کیا
ہوں گلے میں سب کے میٹر ماپ کر کھائیں ہوا
اور اگر گلے میں میٹر لگا کر ماپ کر ہوا کھانے کی ضرورت آ پڑے تو یہ میٹر ملک کے صدر‘ وزیراعظم اور دیگر وزراءکے گلوں میں بھی نظر آنے چاہئیں۔ بجٹ پیش ہونے کے دوران نواز شریف ہمہ تن گوش بھی تھے اور نوٹس بھی بنا رہے تھے۔ الیکشن کے دنوں میں قائد اعظم کی تصاویر کے ساتھ لیڈروں نے اپنی تصاویر لگانے کا رواج بنا لیا تھا مگر اب یہ ملک جس جگہ پر پہنچا دیا گیا ہے اور وہاں سے نکالنے کا مشن لینے میں ”قائد اعظم“ بننا ہی اصل چیلنج ہے۔ 1944ءمیں لاہور میں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے سالانہ اجلاس کی اختتامی تقریر میں قائد اعظم نے کہا تھا ”میں نے زندگی میں بہت کم تعلیمی امتحان دئیے ہیں لیکن عمر کی اس منزل میں ہر سال ایک امتحان کی تیاری کرتا ہوں“ اور نواز شریف کو بھی اقتدار کے اگلے ہر برس ایک نیا امتحان دینے کے لئے تیار رہنا ہو گا اور جس فکر مندی سے وہ آگے بڑھ رہے ہیں پوری امید ہے کہ وہ ان امتحانات میں کامیاب ہو جائیں گے اور کسی حد تک عوام کو ان مشکلات کا ادراک بھی ہے۔ نئے بجٹ میں ”کے پی کے“ اور قبائلی علاقوں میں ٹیکسوں کا استثنیٰ ختم کر دیا گیا ہے۔ کے پی کے اور قبائلی علاقوں کے لوگوں کے محب وطن ہونے پر کسی کو شبہ نہیں لیکن عجیب صورتحال تھی کہ :
گر جاں طلبی مضائقہ نیست
زرمی طلبی سخن دریں است
یعنی جان مانگو تو حاضر ہے لیکن ٹیکس نہیں دینگے .... نئے بجٹ کے مطابق پرائز بانڈ نکلنے کے انعام اور بنکوں سے کیش نکلوانے پر ٹیکس کی شرح میں اضافہ کیا گیا ہے۔ جبکہ ترکی اور انڈیا کے ڈرامے دکھانے والوں کو بھی اب دھڑا دھڑ ڈرامے منگوانے سے پہلے سوچنا ہو گا ‘ کیبل والے تو اپنا بوجھ دوسروں کی طرح عوام پر ڈال دیں گے۔ اسی طرح شادی بیاہ کی بڑے بڑے ہوٹلوں میں تقریبات کا انعقاد اور پرتعیش اور انواع اقسام کے کھانوں میں بھی کچھ کمی کرنا ہو گی۔ ویسے اس قسم کی بچتیں کرنا تو اچھی بات ہے مگر ان تمام فیصلوں کا بوجھ بالآخر عوام کو برداشت کرنا پڑے گا۔
قوم کو پہلے سے موجود مسائل کے حل کی طرف بڑھنے کے لئے اندرونی طور پر مشکلات کا سامنا کرنا ہو گا۔ حسب دستور اپوزیشن نے اس بجٹ کو بھی ”الفاظ کا گورکھ دھندا“ قرار دیا ہے اور یہ الفاظ کہنا بھی ہر بجٹ کے لئے اب رواج سا بن گیا ہے .... لیکن بجٹ 2013ءآ چکا ہے اور اس کے آنے کے بعد کی اور مشکلات میں بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ اضافہ سب سے بڑی مشکل ہو گی کیونکہ عوام پہلے ہی سراپا احتجاج ہیں۔ جبکہ بجٹ کے اندر کئے گئے دیگر فیصلوں کی وجہ سے بھی عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ پھر بھی اگلے ساٹھ روز میں گردشی قرضے ختم ہونے کی بات سچ ثابت ہو گئی تو مشکلات کچھ کم ہو سکتی ہیں۔ ہمارا ملک مشکلات کے جس دوراہے پر کھڑا ہے اور جس انداز سے ملک کو بچانے کی ذمہ داری ہم پر آ چکی ہے تو اس صورتحال میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ :
لے کے میں اوڑھوں ‘ بچھا¶ں‘ یا لپیٹوں کیا کروں
روکھی پھیکی سوکھی ساکھی مہربانی آپ کی
بجٹ 2013 ....روکھی پھیکی سوکھی ساکھی مہربانی آپ کی !
Jun 15, 2013