لاہور (میاں علی افضل سے) بیورو کریسی کی غفلت و لاپرواہی اور سست روی کے باعث پنجاب کے سکولوں کی حالت میں خاطر خواہ بہتری نہیں آسکی سہولیات کی عدم فراہمی اور معیار تعلیم بہتر نہ ہونے کی وجہ سے طلباء اور ان کے والدین سرکاری سکولوں کی بجائے پرائیوٹ سکولوں کو ترجیح دے رہے ہیںجبکہ اربوں روپے کے فنڈز کے باوجود سکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی بیوروکریسی سکولوں کی حالت بدلنے اور طلباء کو سرکاری سکولوں میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ سرکاری سکولوں میں معیار تعلیم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے سکولوں میں موجود 36فیصد طلباء اردو کی مکمل کہانی نہیں پڑھ سکتے جبکہ40فیصد طلباء انگلش کی مکمل سٹوری نہیں پڑھ سکتے۔ بیوروکریسی کی توجہ سکولوں کی حالت بہتر کرنے کی بجائے بلند و بالا دعوئوں پر مرکوز ہے۔ معلوم ہوا ہے پنجاب کے 36اضلاع میں موجود 52ہزار 550سرکاری سکولوں میں سے ہزاروں سکولوں میں بجلی ،واش روم ،چاردیواری سمیت صاف پانی تک کی سہولت موجود نہیں پنجاب میں مجموعی طور پر38ہزار420 پرائمری ،8ہزار 23مڈل سکولوں ،6ہزار 48سیکنڈری اور 659ہائیر سیکنڈری سکول ہیں پرائمر ی سکولوں کیلئے1لاکھ 6ہزار 800 ٹیچرز ، مڈل سکولوں کیلئے77ہزار، سکینڈری سکولوں کیلئے ایک لاکھ 17ہزار900اور ہائیر سکینڈری سکولوں کیلئے 21ہزار 300ٹیچرز تعینات ہیں۔ 26ہزار بوائز سکولوں میں سے 6ہزار 776 میں بجلی کی فراہمی ممکن نہیں بنائی جا سکی، 1563 میں صاف پانی، 2085 سکولوں میں واش روم جبکہ 3388 سکولوں کی چاردیوای نہیں ہے۔ 26ہزار 550طالبات کے سکولوں میں سے 1863 سکولوں میں واش روم، 1331 کی چاردیواری نہیں ہے۔ بوائز اینڈ گرلز سکولزمیں سے 3161 سکولوں میں صرف ایک ہی کلاس روم موجود ہے جبکہ ان سرکاری سکولوں میں دیگر بنیادی سہولیات بھی موجود نہیں۔