’’دہشت گردوں کا آپریشنل بیس تباہ ہوگیا، انٹیلی جنس اداروں کی استعداد بڑھانا ہوگی‘‘

Jun 15, 2015

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) شمالی وزیرستان ایجنسی میں آپریشن ضرب عضب کے ایک برس کے دوران پاکستانی اور غیر ملکی دہشت گردوں کو انکے مضبوط ٹھکانوں اور آپریشنل بیس سے محروم کردیا گیا، تربیتی مراکز، اسلحہ اور بارود ساز کارخانے، گودام تباہ کردیئے گئے، مواصلاتی نظام ختم کردیا گیا لیکن ان کامیابیوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا کہ ٹی ٹی پی اور اس کے ذیلی دہشت گرد گروپوں کی اعلیٰ قیادت بچ کر افغانستان فرار ہونے میں کامیاب رہی۔ آپریشن ضرب عضب کا ایک برس آج پیر کے دن پورا ہورہا ہے۔ ایک برس پہلے آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے ذریعے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ ایک نہایت جرأتمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ دہشت گردوں کو 5 سے زائد طاقتور ملکوں کی مدد حاصل تھی اور اندرون ملک دہشت گردوں کی کارروائی کرنے کی استعداد کا یہ حال تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویزکیانی یہ کہتے پائے گئے شمالی وزیرستان میں کارروائی کی وجہ سے اندرون ملک دہشت گردوں کی طرف سے شدید ردعمل آئیگا۔ آپریشن ضرب عضب کے ضمن میں فوج نے دو نکاتی حکمت عملی اختیار کی۔ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کے ذریعے دہشت گردوں کا گھیرا تنگ کیا گیا تو ساتھ ہی شہری علاقوں میں انٹیلی جنس بنیادوں پر کئے گئے ایک بڑے آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کی مقامی مددگاروں، سرمایہ فراہم کرنیوالوں اور مخبروں کا جال توڑ دیا گیا۔ ایک اہم ذریعہ کے مطابق پنجاب کے صنعتی علاقے اور کراچی دہشت گردی کی کارروائیوں میں درکار فنی مدد کیلئے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں جہاں سے بارود کی تیاری کیلئے کیمیکلز، آئی ای ڈیز بنانے کیلئے پریشرککر، بجلی کے تار، سوئچ اور دیگر سامان خریدا جاتا تھا لیکن اب دہشت گردوںکی مالی اور فنی مدد کے بیشتر راستے کامیابی سے بند کردیئے گئے ہیں۔ ایک ذریعہ کے مطابق آپریشن ضرب عضب کی کامیابیوں کے باعث اب مزید فوجی کارروائیوں کے بجائے مزید انٹیلی جنس آپریشن کرنے اور انٹیلی جنس اداروں کی استعداد اور وسائل بڑھانے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کئی ملکوں کی پراکسی وار کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے جس سے نمٹنے کیلئے ایک نئی انٹیلی جنس حکمت عملی کی ضرورت ہے تاکہ پڑوسی ملکوں بطور خاص افغانستان میں پناہ لئے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف بھی خفیہ آپریشن کئے جاسکیں اور پاکستان کو ان حکومتوں سے کوئی کارروائی کرنے کا مطالبہ کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ 

مزیدخبریں