قوم کی حالت کیسے بدل سکتی ہے؟

علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ خدا نے آج تلک اس قوم کی حالت نہیں بدلی ،نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا،، ۔اقبال ؒکا یہ استدلال سو فیصد درست اسلئے ہے کہ یہ ان کا محض ذاتی خیال نہیں بلکہ یہ پیغام تو ہمیں قرآن پاک سے مل جاتا ہے اور ظاہر ہے قرآن اللہ کاپاک کلام ہے جسکی حقانیت و صداقت پر کوئی شک نہیں۔پاکستان واحد ملک ہے جو لاکھوں قربانیوں کے بعد اسلام کے نام پر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ یہ ممکن نہیںکہ اسقدر ارفع کاز کی خاطر آگ اور خون کا دریا عبور کر کے کشتی پار لگتے ہی کسی قوم کو اپنا مقصد بھول جائے۔یہ بھی ممکن نہیں کہ سمت درست ہوتے ہوئے بھی تاریکیاں کسی قوم کا مقدر ہوں۔مگر یہ بھی جھوٹ نہیں کہ سات دہائیوں کے قریب وقت گذرنے کے باوجودہم وہیں کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج ہم ایٹمی طاقت ہیں تب ہم ایک گمنام اقلیت تھے۔ آج اشرافیہ سیاہ و سفید کی مالک ہے تب گورے ہماری گورننگ اتھارٹی تھے جنکی خدمت کے صلے میں تب مربعے اور ٹائٹل ملتے تھے آج عہدے تقسیم ہوتے ہیں۔ ہمیں قائد اعظم ؒ نے پہلے دن ہی متنبہ کیا تھا کہ کرپشن اور اقرباء پروری وہ بڑی لعنتیں ہیں جن میں ہندوستان مبتلاہے انہوں نے سختی سے کہا کہ ہمیں ان لعنتوں کا خاتمہ آہنی ہاتھوں سے کرنا ہے۔ مگر ہم آج بھی ان لعنتوں میں گرفتار ہیں۔ آج بھی کرپشن اور اقرباء پروری تو در کنار بڑے بڑے معززین کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کے باوجود مکھن سے بال کی طرح نکل کر بیرون ملک براجمان یہ لوگ نہ صرف آج بھی ہمارے کرتا دھرتا ہیں بلکہ عوام کی قسمت کے فیصلے کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ خود اور انکے پروردہ رعونت بھرے انداز سے یہ دعوے کرتے ہوئے نادم نظر نہیں آتے کہ یہ عوام کا مسئلہ نہیں عوام کے مسائل ان سے بہتر کون جانتا ہے ۔ انہیں کوئی پوچھ اسلئے نہیں سکتا کہ رائج الوقت سسٹم انہیں سپورٹ کرتا ہے۔ قائد اعظمؒ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہم اس عظیم ریاست پاکستان کو پر مسرت اور خوشحال بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی تمام تر توجہ عوام بالخصوص غریب طبقے کی حالت بہتر بنانے پر مرکوز کرنا ہوگی۔ مگر آج ملک کی نصف سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی کے دن پورے کرنے پر مجبور ہے اورتھر جیسے علاقوں میں تو خوراک کی کمی سے بچوں کا مرنا ایک معمول کی بات ہے۔ جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ قائد اعظمؒ ملائیت کے حامی نہیں تھے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایسا جمہوری نظام چاہتے تھے جو رنگ ونسل ذات برادری ، موروثیت اور وڈیرہ شاہی سمیت نہ صرف ہر قسم کے طبقاتی تعصبات سے پاک ہو بلکہ میرٹ،انصاف اور مکمل مساوی حقوق کا ضامن ہو۔ قائد اعظمؒ کا فرمان ہے ’’ جمہوریت مسلمان کے خون میں ہے اور مسلمانوں سے زیادہ دنیا میں کوئی جمہوریت پسند نہیں،، سبی میں انہوں نے فرمایا ’’میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات صرف اور صرف عظیم قانون ساز پیغمبر اسلام کے اصولوں کی پیروی میں ہے آئیں ایسے جمہوری نظام کی بنیاد رکھیںجو صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر مبنی ہو،،۔ قائد اعظمؒ کے فرمودات کی روشنی میں کسی ابہام کی گنجائش نہیں رہتی کہ انکے پیش نظر کیسا پاکستان تھا۔ مگر ہمارے نظام پر چند سو خاندانوں کا قبضہ ہے۔سب کی سب بڑی سیاسی جماعتوں پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری قائم ہے اور انکی سربراہی کیلئے باقاعدہ طور پر انہی خاندانوں سے جانشینوں کا تقرر عمل میں آتا ہے۔ اسمبلی کی نشستیں عوام کی بجائے عملاًخواص میں تقسیم نظر آتی ہیں۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ اگر یہی جمہوریت ہے تو ملوکیت کسے کہتے ہیںاور اگر یہی جمہوریت ہے تو یزیدیت اس سے کیونکر مختلف ہے۔ چونکہ کسی سے پوشیدہ نہیں لہٰذا اب سوال یہ نہیں کہ قوم کی یہ حالت کیسے ہوئی ۔سوال یہ بھی نہیں کہ قوم کا یہ حال کس نے کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ حل کیا ہے اور قوم کی حالت کیسے بدل سکتی ہے۔ اگر مصور پاکستان ڈاکٹر علامہ اقبالؒ سے پوچھیں تو سوال کا جواب قرآن میں تلاش کرنا ہوگا۔اگر بانیء پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒسے پوچھا جائے تو ہماری نجات کا واحد راستہ دنیا کے عظیم قانون ساز پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کے اصولوں کی پیروی میں نظر آتا ہے۔مگر یہ تب ممکن ہے جب ہم خود من حیث القوم اپنی حالت بدلنے کا خیال کر یں۔اگر ہم خود اپنی فلاح کا تہیہ کر لیں تو لامحالہ اللہ اور اللہ کے رسول ؐ سے رجوع کرینگے اور یہ اطاعت الٰہی اور اطاعت رسولؐ کے بغیر ممکن نہیں۔ کما حقہ، اطاعت کیلئے ہمیں انفرادی اور اجتمائی طور پر قرآن و حدیث کے پیغام کو سمجھنا ہوگا۔ چونکہ قوم کو ایجوکیٹ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے اسلئے ریاست اس مقدس فریضے سے لاتعلق رہ کرقوم کی کوئی خدمت نہیں کر سکتی۔ حکمران بھی قوم کا حصہ ہوتے ہیں اسلئے قوم کو ایجوکیٹ کرنے کے حوالے سے ان پر زیادہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہماری حکومتیں کس حد تک یہ ذمہ داری ادا کر پائیں ، ملک میں رائج تعلیمی نظام کو ہی دیکھ لیں تو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ حالانکہ انٹرمیڈیٹ و سیکنڈری بورڈز اور یونیورسٹیوں سے منسلک ہمارے تعلیمی اداروں میں پورا قرآن با ترجمہ ہر مسلم طالب علم کیلئے لازمی ہوتا تو آج ہمارا پڑھا لکھا طبقہ اسلامی تعلیمات سے نابلد نہ ہوتا ۔ پڑھا لکھا طبقہ قرآنی احکامات کے مطابق زیور تعلیم سے آراستہ ہوتا تو کوئی عطائی ملّاں دہشت گردوں کا آلہء کاربن کر فتوے جاری کرنے کی جرأت نہ کرتا۔ہم نے قرآن سے راہنمائی حاصل کرنے کی بجائے اسے احتراماً چوم کر ریشمی جلدان میں لپیٹنے کے بعد اونچے طاق میں سجا دیا اور اسے تدریسی نصاب میں شامل نہ کر کے میدان خالی رکھا جس سے مذہب پر ملائیت کے غلبے کی راہ ہموار ہوئی تاہم دیر آئید درست آئید۔ سٹیٹ منسٹر بلیغ الرحمان کیمطابق وفاقی حکومت پہلی سے چھٹی جماعت تک ناظرہ اور ساتویں سے بارھویں جماعت تک باترجمہ قرآن کی تعلیم لازمی کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے ۔ حکومت کا یہ اقدام لائق ستائش ہے ۔اگر عملی جامہ پہنایا جاتا ہے تو میری نظر میں اسے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ سمت درست ہو تو منزل آہی جاتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن