کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد سندھ کی سیلابہ اراضی سیراب نہیں کی جاسکے گی۔ حالانکہ سندھ کو اپنی سیلابہ اراضی سیراب کرنے کا حق تاریخی طور پر ہزاروں سال سے حاصل ہے۔
صوبہ سندھ کا یہ علاقہ ہر سال سیلابی موسم کے دوران سیراب ہوتا ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کا زیادہ بہائو عموماً مئی اور جون کے مہینوں میں شروع ہوتا ہے اور یہ ستمبر، اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ اِس دوران دریا کا پانی کناروں سے باہر نکل آتا ہے جسکے باعث دریا کے دونوں کناروں پر واقع اراضی کو پانی مل جاتا ہے ۔ دریائی پانی کے ساتھ آنیوالی زرخیز مٹی کے علاوہ پانی جذب ہونے کے باعث سیلابہ کے علاقے میں زیرِزمین پانی کی مقدار بھی بڑھ جاتی ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے سیلابہ کے علاقے میں مفت آبپاشی کی اِس سہولت میں کمی واقع ہوجائیگی؟ اس سوال کا جواب ہے کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ اگر دریا کے بہائو کا تمام اضافی پانی کسی بہت بڑے ڈیم میں ذخیرہ کر لیا جائے، تو پھر سیلابہ کے علاقے میں اِس موسمی آبپاشی کا امکان کم ہوسکتا ہے ۔ اس ضمن میں بحث طلب نکتہ یہ ہے کہ ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کتنی ہے اور اس میں پانی کب بھرا جائیگا؟ دریا کے زیریں علاقوں میں آباد لوگ اپنے علاقے میں پانی کی دستیابی کے بارے میں ہمیشہ خدشات کا شکار رہتے ہیں۔ تاہم اگر پہلے تربیلا اور اب دیامربھاشا کے مقام پر ڈیم کی تعمیر سے اُنہیںایسا کوئی خدشہ لاحق نہیں ہے تو پھر کالاباغ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر سے اُنہیں کیوںاور کیسے نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوسکتا ہے؟
یہ ضروری نہیں کہ ڈیم کی تعمیر سے دریا کے زیریں علاقوں میں پانی کے بہائو میں کمی ہی واقع ہو۔ ڈیم کے ذریعے پانی ذخیرہ کیا جاتا ہے اور بوقت ضرورت ذخیرہ کئے گئے پانی کو خارج کیا جاتا ہے۔ ڈیم اِسی بندوبست کیلئے ہی تعمیر کئے جاتے ہیں۔ اِس معاملے کی نوعیت سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ اُن برسوںمیں پانی کے بہائو کا تجزیہ کیا جائے جب پانی ذخیرہ کرنے کیلئے دریائے سندھ پر کوئی ڈیم نہیں تھا۔ صوبہ سندھ کے داخلی مقام پر دریائے سندھ میں پانی کا سالانہ اوسط بہائو 90 ملین ایکڑ فٹ تھا، جو آزادی سے قبل ہی بتدریج کم ہوکر تقریباً 50 ملین ایکڑ فٹ رہ گیا تھا۔ یہ کمی اُس وقت ہی واقع ہوچکی تھی جب دریائے سندھ یا اسکے کسی مُعاون دریا پر کوئی ڈیم تعمیر نہیں کیا گیا تھا۔ اس کمی کی وجہ ڈیم نہیں بلکہ انگریزحکومت کے نظام ِآبپاشی کی تعمیر تھی۔ اِس پیچیدہ معاملے کو سمجھنے کیلئے سیلابی آبپاشی اور نہری نظام کے ذریعے دریائی پانی کے استعمال میں فرق کو پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔ صدیوں سے دریائے سندھ میں آنیوالاموسمی سیلاب اپنے اردگرد واقع کچا کے علاقے میں وسیع و عریض اراضی کو سیراب کرتا آیاہے۔یہ اراضی زیادہ تر سرکاری ملکیت میں ہے، یہاں قدرتی جنگلات افزائش پاتے ہیں، جنہیں غیرقانونی طور پر کاٹ کر آمدن حاصل کی جاتی ہے۔ چنانچہ اس صورتِ حال کے تدارک کیلئے حکومت کی جانب سے جنگلات کی افزائش کے حوالے سے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اُنہیں 50 ایکڑ تک زمین اس شرط کے ساتھ دی جاتی ہے کہ وہ اِس زمین کے ایک مخصوص حصے پر درخت اگائیں گے۔کہا جاتا ہے کہ سیلابہ کے علاقے میں اس طرح کی اراضی کا ایک بہت بڑا حصہ بااثر جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے پاس ہے۔ پانی کا اقتصادی ماہر ہمیشہ پانی کے سب سے فائدہ مند استعمال کو ذہن میں رکھتا ہے۔ لہٰذا اُسکی نظر میں سیلابی آبپاشی پانی کا سراسر ضیاع ہے، لیکن کچا کے علاقے میں سیلاب باعثِ نعمت سمجھا جاتا ہے ۔ ذیل میں دیئے گئے گوشوارہ میں سیلابی علاقے جہاں پانی اپنے ساتھ زرخیر مٹی بھی لاتا ہے ، کے اندر زائد زرعی پیداوار کے حصول کو دکھایا گیا ہے:
گندم 25 سے 30 من (نہری علاقے میں فی ایکڑ پیداوار)۔ 50سے 60 من(کچہ کے علاقہ میں فی ایکڑ )
دالیں (مون‘ ماش‘ مٹر‘ چنا وغیرہ) 5 من (نہری علاقہ میں فی ایکڑ) 7 سے 8 من (کچہ کے علاقہ میں فی ایکڑ )
روغنی بیج۔ 10 سے 15 من (نہری علاقہ میں فی ایکڑ) ۔30 سے 40 من (کچہ کے علاقہ میں فی ایکڑ )
چارہ۔ 10 من (نہری علاقہ میں فی ایکڑ) 20 سے 25 من (کچہ کے علاقہ میں فی ایکڑ ) ۔
فلڈ اری گیشن دو سطحوں پر مُفت آبپاشی ہے۔ پہلی اس طرح کہ اس کا شمار صوبوں کے درمیان پانی کے مختص حصے کے طور پر نہیں کیا جاتا۔لہٰذا سندھ میں ہر اُس منصوبے کو شدید تشویش کی نظر سے دیکھا جائیگاجو دریا کے پانی کو اُسکے کناروں تک محدود کر دے، کیونکہ ایسے منصوبوں کے بارے میں یہ تصور کیا جائیگا کہ ان منصوبوں کی تعمیر سے سیلاب کے دنوں میں سندھ کو اضافی پانی سے محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اضافی پانی سندھ کے اُس حصے کے علاوہ ہے جس کا تعین پانی کی تقسیم کے معاہدے میں کیا جاچکا ہے۔یہی وہ سب سے اہم نکتہ ہے ، جس کا دریائے سندھ کے بالائی علاقوںمیں ڈیم کی تعمیر کے بارے میں ہونیوالی بحث و تمحیص میں بہت زیادہ ذکر نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اِس بات کو کسی شمار قطار میں لایا جاتا ہے۔کالاباغ ڈیم کا ڈیزائن تیار کرتے ہوئے واپڈا سیلابہ کے علاقے کی ضروریات سے آگاہ تھا۔واپڈا اس علاقے میں آباد کاشتکاروں کی ضروریات سے بھی لا علم نہیں تھا۔ منصوبہ کے ریکارڈ سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ واپڈا نے ابتداء میں ہی اِس معاملے کو بھانپ لیا تھا۔ لہٰذا اُس نے نہ صرف سیلابہ کے علاقے کو سیراب کرنے کی ضرورت کو تسلیم کیا بلکہ اُسے کالاباغ ڈیم میں پانی بھرنے کے عمل میں ایک اہم عنصر کے طور پر بھی شامل کیا۔ کالاباغ ڈیم کنسلٹنٹ نے اِس معاملے کا جائزہ لینے کیلئے تفصیلی مطالعات کئے۔ کنسلٹنٹ نے اپنے مطالعات کے نتائج پر مبنی رپورٹ جون 1988 ء میں پیش کی۔ یہ رپورٹ سندھ کی حکومت کو بھی ارسال کی گئی۔ رپورٹ کے نتائج میں کہا گیا ہے کہ دریائے سندھ کے بہائو میں سے 3 لاکھ کیوسک کا سیلابی ریلا چھوڑنے پر سیلابہ کے پورے علاقے کو آبپاش کیا جاسکتا ہے۔ لیکن سندھ کی حکومت نے اس بات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے اِسے رد کر دیا۔ کنسلٹنٹ کی جانب سے اخذ کیا گیا یہ نتیجہ ’’سندھ میں سیلابہ کے علاقے میں کاشتکاری پر ممکنہ اثرات اور دریائے سندھ کی کھاڑی میں سمندری پانی کی سطح میں اضافہ‘‘ کے عنوان سے تیار کئے گئے ورکنگ پیپر میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ معروف آبی ماہر اور کالم نویس جناب ادریس راجپوت اُس وقت سندھ حکومت میں محکمہ آبپاشی کے ایڈیشنل سیکرٹری تھے۔ انہوں نے 9فروری 1988 ء کو واپڈا کے جنرل منیجر کے نام 5 صفحات پر مشتمل ایک طویل مکتوب تحریر کیا، جس میں اُنہوں نے کہا کہ سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کی ضروریات پورا کرنے کیلئے پانی کی جس مقدار کا تعین کیا گیا ہے، وہ کم ہے۔ سندھ کی حکومت نے اس بارے میں ایک نئی سٹڈی کرنے کا مطالبہ کیا۔ مذکورہ سٹڈی کا مطالبہ اُن 9 نکات میں بھی شامل تھا، جو مئی 1989 ء میں کالاباغ ڈیم منصوبے کے پی سی II- کو زیرِ غور لانے کے دوران ایکنک کی ہدایت پر بنائی گئی کمیٹی کو پیش کئے گئے تھے۔ سیلابہ کے علاقے کو سیراب کرنے کیلئے پانی کی مطلوبہ مقدار کا تعین کرنے کیلئے مزید کوئی سٹڈی نہیں کی گئی کیونکہ 1990 ء میں یہ منصوبہ عملی طور پر فائلوں کی نذر کر دیا گیا۔
اوپربیان کی گئیں معروضات سے ظاہر ہے کہ لوگوں کے ذہن میں پایہ جانیوالا یہ خدشہ کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے بعد سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کیلئے پانی نہیں بچے گا، درست نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کالاباغ ڈیم پراجیکٹ کو حتمی شکل دی جارہی تھی اُس وقت بھی سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی کی ضروریات کو نظرانداز نہیں کیا گیا تھا۔ سیلابہ کے علاقے کیلئے درکار پانی کی مقدار کا اندازہ لگانے کیلئے سندھ کی حکومت سے بھی گفت و شنید کی گئی تھی۔ اگر دیامربھاشا کے مقام پر ڈیم تعمیر کرنے سے پانی کے بہائو میں کمی نہیں آئیگی تو کالاباغ کے مقام پر ڈیم کی تعمیر سے پانی کے بہائو میں کیسے کمی آسکتی ہے۔ البتہ کالاباغ ڈیم میں پانی کی بھرائی کا دورانیہ اور بعد ازاں پانی کی تقسیم ایسے عوامل ہوسکتے ہیں جن سے سیلاب کے دنوں میں زیریں علاقوں میں پانی کا بہائو متاثر ہو۔ مستقبل میں کسی بھی ایسی کوشش یا بندوبست میں، جس کا مقصد پانی ذخیرہ کرنے اور اسکی تقسیم کے بارے میں اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہو، سیلابہ کے علاقے میں آبپاشی اور کوٹری بیراج سے زیریں جانب دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے جیسے عوامل کو بہرصورت شامل ہونا چاہئے۔