اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی جے آئی ٹی کے سامنے بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ حسین نواز کے وکیل نے عدالت میں کہا، قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، کل وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش ہونگے اس بات کی کیا یقین دہانی ہے کہ ان کیوڈیو لیک نہیں ہوگی۔ جسٹس شیخ عظمت نے پوچھا تصویر کی لیکیج نے کیا نقصان پہنچایا؟ جسٹس اعجازالاحسن بولے، ویڈیو سے آپ کو نقصان پہنچنے والی سٹوری سمجھ نہیں آ رہی۔ حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیئے کہ قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا، ویڈیو لیک ہوئی تو اثرات موجودہ صورتحال سے زیادہ ابتر ہوں گے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان محفوظ بھی ہو جائے تو بیان زبانی ہی رہے گا، ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی۔ حارث خواجہ نے کہا وڈیو بیان کی کوئی حیثیت نہیں تو ریکارڈ کیوں کیا جارہا ہے؟ کل وزیراعظم جے آئی ٹی میں پیش ہونگے اس بات کی کیا یقین دہانی ہے کہ ان کی وڈیو لیک نہ ہو۔ وزیراعظم کی ویڈیو جے آئی ٹی سے باہر آ گئی تو ذمہ دار کون ہو گا؟ جسٹس اعجاز افضل اس موقع پر کہا ویڈیو ریکارڈنگ سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہورہے، رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ دوران سماعت جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، تصویر لیک ہونے میں کیا مسئلہ ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اعتراضات قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگتے، جو جے آئی ٹی کے کام میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے وہ سپریم کورٹ کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے، وڈیو ریکارڈنگ آپکو نقصان پہنچانے سے زیادہ آپکا تحفظ بھی کرےگی۔ جے آئی ٹی کے الزامات پر حسین نواز نے سپریم کورٹ میں جواب جمع کراتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے ایک طرف تصویرلیک ہونے کا اعتراف کیا گیا جبکہ دوسری طرف درخواست کو جے آئی ٹی کیخلاف مہم کا حصہ قرار دیا گیا ہے ،جواب میں کہا گیا ہے کہ سی سی ٹی وی کیمروں کا کنٹرول بھی جے آئی ٹی کے پاس ہے اور کیمروں کا فوکس صرف پیش ہونیوالے شخص پر ہوتا ہے اور تصویر لیکج کی ذمہ دار جے آئی ٹی ہے حسین نواز نے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی درخواست میں توہین آمیز یا سخت زبان استعمال نہیں کی جبکہ جے آئی ٹی ممبران تصویر لیکج سے راہ فراراختیار نہیں کرسکتے کیونکہ سی سی ٹی کیمروں میں جے آئی ٹی کا کوئی ممبر نہیں دکھائی دے رہا، جواب میں کہا گیا ہے کہ قانون جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا اور ریکارڈنگ کا ایس او پی جے آئی ٹی نے خود بنایا حالانکہ اس کے پاس ایسا کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے آبزرویشن دی کہ عدلیہ اور جے آئی ٹی کیخلاف جاری مہم سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہونگے اس معاملہ کو قانون کے مطابق نمٹانے پر یقین رکھتے ہیں ، عدالت نے اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ تحقیقات میں جے آئی ٹی کو درپیش رکاوٹوںکے بارے میں اپنا جواب عدالت میں جمع کرائیں تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے بہت کچھ ہورہا ہے رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے جبکہ کیس کی مزید سماعت آج ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کردی گئی ہے اس سے قبل جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجازالاحسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کا آغاز کیا تو حسین نواز کے وکیل خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر جواب جمع کروا دیا ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ انکے جواب کو چھوڑیں، آپ اپنا کیس شروع کریں،جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپ نے رپورٹ دیکھی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ نہیں ابھی میں نے رپورٹ نہیں دیکھی جس پر عدالت نے انہیں رپورٹ کا جائزہ لینے کی ہدایت کی تو خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کا اعتراف کیا ہے کہ ان کاویڈیوریکارڈنگ اور تصاویر کی لیکیج پر کوئی کنٹرول نہیں ہے اسکے نتائج کیا ہونگے اس سے بھی آگاہ کرونگا ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کا سی سی ٹی وی کیمروں پر کنٹرول نہیں، جے آئی ٹی اس پوزیشن میں نہیں کہ تصویر لیک ہونے کے معاملے کو کنٹرول کرے، جے آئی ٹی میں پیشی کے دوران وڈیو ریکارڈنگ نہیں ہونی چاہئے، ویڈیو لیک ہوئی تو اس کے اثرات موجودہ صورتحال سے زیادہ ہوں گے،جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی کاپی اٹارنی جنرل کو فراہم کر دی ہے، تصویر لیک پر جے آئی ٹی کی رپورٹ لیک کرنے کا فیصلہ کرنا اٹارنی جنرل کا کام ہے، خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تصویر لیک ہونے کا اعتراف کر لیا ہے جے آئی ٹی کا کیمروں اور مانیٹرز پر کوئی کنٹرول نہیں لگتا، ضابطہ فوجداری کی دفعہ 161 کے تحت زبانی تحقیقات ہوسکتی ہیںاور تحقیقات کو بوقت ضرورت تحریر کیا جا سکتا ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ دفعہ 161 کا بیان بطور ٹھوس ثبوت تسلیم نہیں ہوتا، ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا جہاں بیانات کا جائزہ لیں، ویڈیو ریکارڈنگ سے بیان کی حیثیت تبدیل نہیں ہوگی، ریکارڈنگ کا مقصد صرف درست متن لینا ہے، ویڈیو ریکارڈنگ سے کوئی حقوق متاثر نہیں ہورہے اور ویڈیو بیان قانون کے مطابق ثابت کرنا ہوتا ہے کیونکہ ویڈیو بیان کوئی ثبوت نہیں ہوتا، خواجہ حارث نے کہا کہ درست ریکارڈ ویڈیو ریکارڈنگ سے پہلے بھی مرتب کیا جاتا تھا، ہم 1889 میں نہیں رہ رہے، ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا کوئی بڑی بات نہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ زبردستی کسی سے اقبال جرم نہیں کروایا جا سکتا، ویڈیو ریکارڈنگ میں ایسا ہی کیا جا رہاہے، گواہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بیان دینے کے لیے آزاد ہوتا ہے، اگر بطور ثبوت استعمال نہیں ہوسکتا تو ویڈیو کی کیا ضرورت ہے، جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ صرف بیان کا درست متن ریکارڈ پر لانا ہی ویڈیو ریکارڈنگ کا مقصد ہے،کوئی قانون ویڈیو ریکارڈنگ کی اجازت نہیں دیتا،ویڈیو بنانا دراصل گواہ سے بیان پر دستخط کروانا ہے، دفعہ 161 کا بیان صرف جرح کے کیے استعمال ہو سکتا ہے، اس پر حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ ایک کیس میں عدالت نے وکیل کو کہاآپکا نقطہ قانونی نہیں لیکن آپ نے محنت کی اس لیے درخواست منظور کررہے ہیں،جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اس بینچ میں آپکو یہ سہولت نہیں ملے گی، کوئی گواہ تحقیقات کے بعد عدالت میں نیا موقف نہیں اپناسکتااس پر حسین نواز کے وکیل نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران گواہ پر نفسیاتی دباﺅ رہتا ہے، قانون میں ویڈیو ریکارڈنگ کی کوئی گنجائش نہیں،انہوں نے کہاکہ میں ریکارڈنگ کے نفسیاتی پہلو کی نشاندہی کررہا ہوں،جس پر جسٹس اعجاز افضل کا کہنا تھا کہ ویڈیو بیان ہو یا تحریری، قانون کے مطابق جانچا جاتاہے خواجہ حارث نے کہا کہ گواہان پر بیان تبدیلی کے لیے دباو ڈالا جا رہا ہے، عدالت ویڈیو ریکارڈنگ کا جائزہ لے کہ ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ تو نہیں ہوئی، جے آئی ٹی بھی کہتی ہے کہ ویڈیو ریکارڈنگ کا عدالت جائزہ لے، اگر ویڈیو ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ ہوئی تو اسکے کیا نتائج ہونگے، قانون سے ہٹ کر کوئی بات نہیں کرونگا ، نئی ٹیکنالوجی کا استعمال کا فیصلہ قانون سازوں نے کرنا ہے، ریکارڈنگ میں ٹمپرنگ بھی ہوسکتی ہے، ویڈیو سے تصویر کا سکرین شاٹ لیک ہوا، کل ویڈیو بھی لیک ہوسکتی ہے، ویڈیو لیک ہوئی تو کون ذمہ دار ہوگا، جے آئی ٹی نے ساری ذمہ داری ایک بندے پر ڈال دی،کیا گارنٹی ہے وزیراعظم کی ویڈیو لیک نہیں ہوگی، وزیر اعظم کی ویڈیو کل سوشل میڈیا پر آگئی تو کون ذمہ دار ہوگا، خواجہ حارث نے کہاکہ جے آئی ٹی اپنی حرکتوں پر خود کیسے جج بن سکتی ہے ، عدالت جے آئی ٹی کو ویڈیو ریکارڈنگ سے روکے، ویڈیو کسی کے بھی ہاتھ لگ سکتی ہے ، جی آئی ٹی کو اتنی سہولیات کیوں دی جارہی ہیں، تصویرلیک کے لیے کمشن بنایا جائے، انہوں نے کہاکہ ایک شخص جو باعزت طریقے سے بیٹھا ہے اس میں بے عزتی کی کیا بات ہے ویڈیوریکارڈنگ آپ کو نقصان کی بجائے تحفظ دے رہی ہے ۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ویڈیوریکارڈنگ سے ہونے والے نقصان والی سٹوری سمجھ نہیں آرہی۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے کہاکہ ویڈیوریکارڈنگ کا طریقہ جے آئی ٹی نے خود اپنایا عدالت نے اس کا حکم نہیں دیا تھا ۔اس دوران خواجہ حارث نے کہاکہ ہر شہری کا حق ہے کہ وہ اپنا موقف پیش کرے۔عدالت نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا آپ نے جے آئی ٹی کی درخواست پڑھی ہوگی، جے آئی ٹی کی راہ میں رکاوٹ ڈالنا عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے، جے آئی ٹی کے تحفظات کا تفصیلی جائزہ لیں، رکاوٹوں کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ جے آئی ٹی کے الزامات انتہائی سنجیدہ ہیں، اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی درخواست پر کل عدالت کی معاونت کرسکتا ہوں، خواجہ حارث کے دلائل پر آپکا کیا موقف ہے، آپ خواجہ حارث کے ساتھ متفق ہیں،اس پر اٹارنی جنرل نے بھی ویڈیو ریکارڈنگ کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ عدالت خود قانون میں گنجائش پیدا نہیں کرسکتی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اعتراضات قانونی کم اور سیاسی زیادہ ہیں، گواہ جھوٹ بولنے کے لیے نفسیاتی سکون چاہتے ہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ تصویر لیک ہونے میں کیا مسئلہ ہے جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ تصویر میں ایک شخص عزت کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب عدالت میں ہونے والی گفتگو بھی ریکارڈ ہوتی ہے، کیا آپ اس پر بھی اعتراض کریں اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت میں صرف قانونی گفتگو ہوتی ہے،جسٹس شیخ عظمت سعید نے اس پر کہا کہ عدالت میں ویڈیو نہیں تحریری بیان پیش ہوتا ھے،جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ویڈیو ریکارڈنگ آپ کے ساتھ برا سلوک بھی نہیں ہونے دیتی مجھے یہ صرف تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنا لگتا ہے، تحقیقات میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اور بھی بہت کچھ ہو رہا ہے،اس دوران تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے ایک متفرق درخواست دائر کی ہے جس میں جے آئی ٹی اور فاضل عدالت کو دھمکیوں کے حوالے سے کچھ دستاویزی ثبوت دیئے گئے ہیں ۔ جسٹس اعجاز افضل نے مزید کہاکہ ہم اس مہم سے کو جانتے ہیں لیکن ہمیں یقین ہے کہ اس معاملہ کو قانون کے مطابق ڈیل کریں گے۔دھمکیوں سے ہم مرعوب نہیں ہونگے انہوں نے کہاکہ بعض سینئر صحافی بھی چیزوں کو درست انداز میں پیش نہیں کرتے ۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ عدالت تمام چیزوں کو نوٹ کررہی ہے ۔دوسری طرف وزارت قانون نے جے آئی ٹی کے الزامات کی تردید کردی۔ ترجمان وزارت قانون نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی سے موصول نوٹیفکیشن فوری متعلقہ وزارتوں کو بھیجے گئے ۔ وزارت خارجہ کو بھی بلا تاخیر جے آئی ٹی کا سرکلر بھیج دیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں ایف بی آر نے جے آئی ٹی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے حوالے سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کواپنا تحریر ی جواب بھجوا دیا جس میں کہا گیا ہے ریکارڈ فراہمی میں تاخیر نہیں کی، جے آئی ٹی کے مراسلے آٹھ،پچیس،انتیس مئی اور آٹھ جون کو موصول ہوئے ۔ جے آئی ٹی نے آٹھ مئی کوچھ افراد کی1985کے بعدکی انکم،ویلتھ ٹیکس ریٹرن مانگی جس پر دو افراد کا1985سے اب تک کا ریکارڈسات دن میں فراہم کر دیا جبکہ باقی چار افراد نے اس مدت کے بعد سے ٹیکس ریٹرن فائل کیں، ان کا ریکارڈ بعد کے سالوں سے فراہم کیاگیا ۔جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے25مئی کومزید دس افراد کا ریکارڈ مانگا تو ان دس افراد کا ریکارڈ پانچ دن کے اندر فراہم کر دیاگیا ۔ایف بی آر کے جواب میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے8جون کو مزید ایک شخص کا ریکارڈ مانگا اور آٹھ جون کو 1974سے بعد کا ٹیکس ریکارڈ دینے کی ہدایت کی گئی یہ ریکارڈ12جون کو جے آئی ٹی تک پہنچا دیاگیا ایف بی آر کے مطابق جے آئی ٹی نے ریکارڈ مختلف اوقات میں مانگا اس لئے ٹکڑوں میں فراہم کیا گیاتاہم کچھ ریکارڈ ایف بی آر میں دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے پیش نہ کیا جا سکا۔