آئے دن ایمان،اتحاد ،تنظیم کی اسلامی تعلیمات پر مبنی ماٹو پر تربیت پانے والی پاکستان کی بہادر فوج پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ تازہ حملہ اسد درانی، سابق سربراہ آئی ایس آئی کی اپنے بھارتی ہم منصب دولت کے ساتھ مل کر لکھی کتاب ’’جاسوس کی سرگزشت‘‘ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔اسوقت جب پاکستانی فوج کو انتہا پسندوں کا ساتھی ثابت کرنے اور پاکستان پر پابندیاں لگانے کا غوغہ عام ہے یہ کتاب بھی سامنے لائی گئی ہے۔ بہر حال پاکستان فوج نے درانی کی کتاب کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے خلاف کی انکوائری شروع کی ہے۔ اسد درانی کا نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس کتاب کے مندرجات سے پاک فوج کو کتنا نقصان پہنچا اور اسد درانی نے اپنے حلف کا کتنا پاس رکھایا یہ تو انکوائری کے دوران سامنے آ جائے گا۔ہم تو یہ عرض کر رہے ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیںیہ ایک مسلسل سازش ہے جو پاکستان کی فوج کے خلاف کی جارہی ہے۔اس کا تاریخی طور پر تجزیہ کریں تو بات کچھ اس طرح ہے۔ ہندو لیڈر شپ بر صغیر سے انگریز کے چلے جانے کے بعد ہندوستان پراکیلے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتی تھی۔ہندوئوں کے پاس مروجہ جمہوریت کے تحت اکژیت کا فارمولہ تھا۔قائد اعظمؒ کانگریس میں رہ کر ہندوئوں کے اس متعصبانہ رویہ کو اچھی طریقہ سے جان گئے تھے۔ اس لیے انہوں نے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر تحریک پاکستان چلائی تھی اور پاکستان حاصل کیا۔ ہندو لیڈر شپ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کے دو قومی نظریہ سے جمہوری طور پر شکست کھانے کے بعد بھی اپنے اصل عزائم سے باز نہیںآئے۔
۔ہندوئوں کے لیڈرموہن داس کرم چند مہاتماگاندھی نے تحریک آزادی ہند کے دوران اپنے خدشہ کااظہار اس طریقہ سے کیا تھا۔’’میں پاکستان بن جانے کے خوف میں مبتلا نہیں ہوں میں اس دن سے خوف کھا رہا ہوں جس دن پاکستان آزاد ہو کر مسلمانوں کے سمندر میں مل جائے گا اور ہم مسلمانوں کے سمندر سے مقابلہ کی پوزیشن میں نہیں ہونگے‘‘ ان ہی دنوں میں ہندوئوں کے دوسرے مرکزی لیڈروں کے بیان بھی جو وہ وقتاًفوقتاً جاری کرتے رہے تھے، تاریخ ہند وپاک کے صفحات پر موجود ہیں۔ ’’وہ کہتے رہے کہ جب جب دو قومی نظریہ ٹھنڈا ہوتا جائے گا مسلمان اورہندوواپس ایک قوم بن جائیں گے‘‘ یعنی اکھنڈ بھارت بن جائے گا۔ یہ ہی ڈاکٹراین ہندو لیڈر شپ آج تک لے کر چل رہی ہے۔ قائد ؒکے دو قومی نظریہ کو پاکستانیوں کے دلوں سے زائل کرنے میں لگی رہی۔ قائد ؒ کے دو قومی نظریہ سے اختلاف رکھنے والے کانگرسی مسلمان لیڈرمولانا آزاد، جو بعد میں بھارت کے پہلے مسلمان صدر بھی بنے، اپنی کتاب’’ انڈیا ونز فریڈیم‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ۲۵سالوں میں پاکستان ٹوٹ جائے گا۔بھارتی لیڈر ہر طرح سے پاکستان کو ختم کرنے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اُنہیں بنگال میں قوم پرست شیخ مجب الرحمان ملا۔ جس نے قائد ؒ کے دو قومی نظریہ کے مقابلے میں بنگالی قومیت کی بنیاد پر مشرقی پاکستان کو بھارت کی فوج کشی کے ذریعے مغربی پاکستان سے علیحدہ کیا۔ کشمیر میں قوم پرست شیخ محمد عبداللہ ملا۔ جس نے تقسیم کے فارمولے اور دو قومی نظریہ کے خلاف کشمیریوں کو کشمیری قومیت کے زہر میں مبتلا کیا۔کشمیر پر بھارت کو قبضہ کرنے میں مدد کی جو آج بھی قابض ہے۔صوبہ سرحد میں قوم پرست سرحدی گاندھی عبدالغفار خان صاحب ملا۔ جس نے پشتونستان کا نعرہ بلند کیا۔ مگر سرحد کے غیور مسلمانوں نے قائد اعظم ؒ کے دو قومی نظریہ کا ساتھ دیتے ہوئے ریفرنڈم میں سرحدی گاندھی کو شکست فاش دی اور پاکستان میں شامل ہو گئے۔ افغانستان میں قوم پرست غنی حکومت قائم ہے۔ جو بھارت اور امریک کہ شہ پر پاکستان پر دہشت گردانہ حملے کرتی رہتی ہے۔ پاکستان ،بھارت اور افغانستان کی یہ تاریخ بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ پاکستان صرف اور صرف اس کے بانی قائدؒ کے دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم و وائم رہ سکتا ہے۔ پاکستان کو ودقو قومی نظریہ سے ہٹانے والے ،پاکستان کے خلاف گریٹ گیم کے تینوں کردار، بھارت، امریکا اور اسرائیل بھی شامل ہے۔ یہ تینوں ،اسلامی اور ایٹمی پاکستان کو ایک نظر نہیں برداشت کرنا چاہتے۔ اس وقت صرف پاکستانی قوم اور پاکستانی فوج اسلامی اور ایٹمی پاکستان کی محافظ ہے۔دیکھا جائے تو پاکستان کے قریب قریب سارے حکمران غلطی پر غلطیا ںکرتے رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی دو قومی نظریہ کی بجائے ایک سیکولر جماعت رہی ہے۔ذولفقار علی بھٹو صاحب اوربے نظیر صاحبہ سیکولر اور روشن خیال تھے۔ دونوں نے دوقومی نظریہ کو تقویت نہیں پہنچائی۔ آصف علی زرداری صاحب کے دور میں فوج کے خلاف میمو گیٹ کی سازش ہوئی۔ نا اہل وزیر اعظم نواز شریف نے قائد اعظم ؒ کے دوقومی نظریہ کی مخالفت میں اعلانیہ بیان دیا۔ کہتے رہے کہ میں سیکولر ہوں۔ کہتے ہیں’’ہندئو اور مسلمان ایک خدا کو ہی مانتے ہیں۔ ان کی تہذیب ایک، ان کا تمدن ایک ، ان کی ثقافت ایک، ان کا رہنا سہنا ایک جیسا۔ ایک جیسا کھاتے پیتے ہیں۔ بس ایک لکیر نے ان کو آپس میں جدا کیا ہوا ہے‘‘ کیا یہ اکھنڈ بھارت کی تعبیر ہے کہ نہیں؟ اسد درانی اور اس کے ہم منصب دولت کی مشترکہ کتاب ’’جاسوس کی سرگزشت‘‘ہو یا اس سے قبل سابق بیورو عائشہ صدیقی کی کتاب ’’خاکی کمپنی‘‘ حسین حقانی کی کتاب’’پاکستان ملائوں اور فوج کے درمیان‘‘ یا اور بہت سے کتابیں جو پاکستان کی اسلامی تعلیمات پر مبنی ماٹو ،ایمان،اتحاد اور یقین والی بہادر فوج کے خلاف لکھی گئیں ہوں۔ یہ سب ایک ہی سلسلہ کی کڑی ہیں کہ کسی طرح پاکستان کو اس کے اصلی راستے، دو قومی نظریہ سے ہٹا کر ہندوئوں کے تحریک آزادی ہند کے دوران بیان کیے گئے، سیکولرزم اور قومیں اوطان سے بنتی ہیں کے فلسفے پر ڈالا جائے ۔تا کہ پاکستان کا دو قومی نظریہ اور اسلامی تشخص ختم ہو جائے وہ اپنا وجود قائم نہ رکھ سکے۔
یہ بھی ایک حقیقت کہ قائدؒ اور لیاقت علی خانؒ کے بعد سیاست دان تو دوقومی نظریہ کی حفاظت نہیں کر سکے۔اس میں صرف دینی پارٹیاں اورہماری بہادر فوج رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ اسی لیے حسین حقانی نے ’’ پاکستان ملائوں اور فوج کے درمیان‘‘ لکھی ہے۔ فوج پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں۔بہت پہلے یورپ میں روگ فوج کا پروپگینڈا ہو، الطاف حسین کا آئی ایس آئی کو ختم کرنے کا برطانیہ کے وزیر اعظم کو خط ہو، میمو گیٹ ہو یا اب اسی کا تسلسل نواز شریف کا کھلے عام فوج کے خلاف بیانات ہوں۔ پاکستانی عوام، محب وطن سیاسی اور دینی جماعتیںاپنی بہادر فوج کے ساتھ ہیں۔ جب تک مثل مدینہ مملکت اسلامیہ کے عوام اور فوج یک جان و یک دل رہیں گے۔ کوئی سازشی کتاب ہماری بہادر فوج کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی۔ اللہ! مثل
اسد درانی اور ودلت کی مشترکہ کتاب۔ جاسوس کی سرگزشت
Jun 15, 2018