ثمینہ راجہ(لندن)
پچھلے دنوں حکومتِ پاکستان نے گلگت بلتستان کے لئیے نیا آئینی فارمولا دیا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام ایک عرصے سے بنیادی انسانی حقوق سمیت سیاسی، آئینی اور شہری حقوق کی فراہمی کا مطالبہ کرتے آ رہے تھے اور اس مقصد کی خاطر عوام نے ایک طویل اور صبر آزما پرامن سیاسی جدوجہد کی ہے۔ مگر گلگت بلتستان کے عوام کی بدنصیبی ہے کہ آئین میں گلگت بلتستان کے عوام، ان کے منتخب نمائندوں اور ان کے سیاسی و قانونی اداروں کو ابھی تک اختیارات سے محروم رکھا گیا ہے۔
آئین کے نام پر گلگت بلتستان کے عوام کو تمام آئینی، سیاسی، معاشی اور بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے وزیر اعظم کو اب بھی لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔ گلگت بلتستان کا 2018 کا یہ آئینی پیکج گلگت بلتستان کو عملی طور پر نوآبادی میں تبدیل کر نے کے مترادف ہے۔ اس آئین کی اہم دفعات میں درج ہے (گلگت بلتستان کے) تمام شہریوں پر، وہ جہاں بھی رہتے ہوں، اس آرڈیننس کا اطلاق ہو گا۔مذہبی آزادی قانون اور امنِ عامہ کی ضروریات کے تابع ہو گی۔حقِ ملکیت اور جائیداد بھی ریاست کی منشاءکے تابع ہو گا۔
گورنر کا تقرر پاکستان کا صدر پاکستان کے وزیرِاعظم کی ہدایت کے مطابق کرے گا۔گلگت بلتستان کی حکومت پاکستان کے وزیراعظم کی ہدایات کی پابند ہو گی۔گلگت بلتستان کا ڈومیسائل رکھنے والا کوئی بھی شخص جس کا نام ووٹر لسٹ میں درج ہو گا، ووٹ کا حق رکھتا ہے۔اگر کوئی عدالت کسی کو نظریہ پاکستان، پاکستان کی سالمیت، تحفظ، استحکام، پاکستانی فوج یا پاکستانی عدلیہ کی تذلیل و تحقیر کے جرم میں سزا سنا دیتی ہے تو سزا کاٹنے کے بعد بھی پانچ سال تک ایسا شخص انتخابات میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہو گا۔
قانون سازی کے حتمی اختیارات پاکستان کے وزیراعظم کو حاصل ہوں گے اور اگر اسمبلی کوئی ایسا قانون بناتی ہے جس پر پاکستان کا وزیراعظم خوش نہیں تو اسمبلی کے قانون کے مقابلے میں پاکستانی وزیراعظم کا فیصلہ قانونی حیثیت کا حامل ہو گا اور گلگت بلتستان اسمبلی کا قانون کالعدم قرار پائے گا۔
ٹیکس نافذ کرنے کے لئے قانون کا سہارا لیا جائے گا اور پہلے سے نافذ تمام ٹیکس برقرار رہیں گے۔گلگت بلتستان میں سپریم ایپلیٹ کورٹ کے ججوں کی تقرری کا اختیار پاکستانی حکومت کو ہو گا۔ججوں کی تنخواہوں اور مراعات کے تعین کے اختیارات پاکستانی وزیراعظم کے پاس ہوں گے۔گلگت بلتستان میں آڈیٹر جنرل کی تقرری پاکستانی وزیراعظم کی ہدایت پر کی جائے گی ۔ وزیراعظم پاکستان کو گلگت بلتستان میں کام کرنے والے سرکاری ملازمین کو عام معافی دینے کا اختیار حاصل ہو گا۔نیز پاکستانی وزیراعظم اور گلگت بلتستان کے گورنر کے خلاف ان کے دور حکومت میں کوئی فوجداری یا سول قانونی کاروائی نہیں کی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ ایمرجنسی کے نفاذ کیلئے گلگت بلتستان کی حکومت کے تمام انتظامی اختیارات پاکستانی وزیراعظم کو منتقل ہو جائیں گے۔ اور ایمرجنسی کے نفاذ پر گلگت بلتستان کے شہریوں کے تمام بنیادی انسانی اور قانونی حقوق ختم ہو جائیں گے۔گورنر، وزیراعلی'، اسمبلی اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر، حکومتی وزرائ، ممبران اسمبلی، سپریم ایپلیٹ کورٹ اور ہائیکورٹ کے جج، آڈیٹر جنرل اور حکومتی مشیر جو حلف اٹھائیں گے اس میں پاکستان اور پاکستانی آئین کے ساتھ وفاداری اور پاکستان کے آئین کے تحفظ کی قسم دی جائے گی۔الیکشن کمشنر بھی اپنے حلف میں پاکستان کے آئین کے ساتھ وفاداری کا عہد کریں گے۔
فورتھ شیڈول کے تحت گلگت بلتستان کی سرکاری ملازمتوں میں پورے پاکستان سے تعیناتی ہو سکے گی اس طرح ہے:گریڈ 17 میں کل ملازمتوں کا 18% پاکستانی ۔گریڈ 18 میں 30% پاکستانی۔گریڈ 19 میں 40% پاکستانی ۔گریڈ 20 میں 50% پاکستانی اور گریڈ 21 کے 60% سرکاری افسران پورے پاکستان سے تعینات ہوں گے۔ شہریت کے تعین سے لے کر، سیاسی تحریکوں کا کنٹرول، ڈاک و تار کا نظام، زرِمبادلہ، عوام کی بچتوں، حکومتی مالیاتی کنٹرول، پبلک سروس کمیشن، پینشن، محتسب، لائیبریریوں، عجائب گھروں، ریسرچ، ٹیکنیکل ٹریننگ، انتظامی عدالتوں، بیرونی ممالک میں تعلیم و تربیت، نیوکلیائی انرجی اور اس کے لئیے درکار معدنیات، سرحدی تجارتی معاملات، فضائی و بحری ٹریفک کے امور، ایجادات کے ملکیتی حقوق، افیون کی کاشت، قومی بنک، کرنسی اور بینکنگ کا نظام، تمام بیرونی تجارت، انشورنس کا نظام، صنعتی اور تجارتی کارپوریشنوں کے تمام امور، سٹاک مارکیٹ، اقتصادی منصوبہ بندی، بیرونی تجارتی سمجھوتے و معاہدے، قومی شاہراہوں اور اہم سڑکوں کے معاملات، مچھلی کی صنعت، وفاقی حکومت کے کام کے لئیے درکار زمینوں اور عمارات کے معاملات، تمام اقسام کے سروے، اوزان و پیمانوں کا تعین، مردم شماری کے معاملات، کسٹم ڈیوٹی اور دیگر درآمدی و برآمدی ٹیکس، پولیس کے معاملات و استعمال، ایکسائز ڈیوٹی، معدنیات، قدرتی گیس، صنعتوں کا قیام، قیدیوں کی نقل و حرکت، پاکستان کی سالمیت کے معاملات اور اس مقصد کے لئیے پولیس اور دیگر اداروں کا قیام، بجلی اور ڈیموں سے متعلقہ تمام معاملات، اخبارات، کتب اور پرنٹنگ پریس کے امور، نصاب کا تعین اور تعلیم کا معیار، فلمسازی، سرحدی تجارتی کنٹرول، قانونی، طبی اور دیگر پیشہ وارانہ شعبوں کے معاملات، اعلی' تعلیم اور اس کے معیار سے متعلقہ امور، اشیائ کی نقل و حرکت کے کرایوں اور ٹیکسوں کے معاملات، قومی اقتصادی منصوبہ بندی، فیسوں کے تعین کے معاملات، عدالتوں کے دائرہ کار اور اختیارات کے معاملات، بین الصوبائی امور، قانون شکنی کے معاملات، اعدادوشمار کے امور اورصوابدیدی اختیارات یہ سب امور وزیراعظم پاکستان کے ذریعے چلائے جائیں گے ۔اگر یہ کہا جائے کہ اس آئین کے تحت گلگت بلتستان کے عوام کو گھروں سے باہر نکل کر پہاڑوں کو دیکھنے کے حق کے علاوہ کوئی اور حق حاصل نہیں تو یہ بیجا نہ ہو گا۔