عام تنخواہ دار طبقے کی سالانہ چھ لاکھ روپے سے زائد کی آمدنی پر انکم ٹیکس عائد ہوتا ہے مگر پنجاب کے کسانوں کی سالانہ اسی ہزار کی کمائی پر صوبائی انکم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس دو ہزار بارہ میں عائد ہوا۔ اسے آرڈی ننس کے ذریعے نافذ کیا گیا یا پنجاب صوبائی اسمبلی کے ارکان کے اکثریتی یا متفقہ ووٹوں سے نافذ کیا گیا، اس کی تحقیق میں نہیںکر سکا۔مگر یہ اس دور کی بات ہے جب پنجاب میں ن لیگ کے شہباز شریف کی حکومت تھی۔ یہ وزیر اعلی پیشے کے لحاظ سے کسان نہیں تھے بلکہ فولاد کی بھٹی کا بزنس کرتے تھے ، پھر یہ بڑے صنعتکار بنتے چلے گئے اور میں نہیں جانتا کہ یہ زمیندار بھی بنے یا نہیںبنے لیکن ان کے بڑے بھائی نواز شریف نے جاتی عمرا کامحل بنایا تو اسکے ارد گرد زرعی زمینیں بھی خریدیں ۔اس کے علاوہ پنجاب ا سمبلی کے ارکان کی اکثریت کا تعلق بہر حال زراعت سے تھا اور انہیں اچھی طرح علم تھا کہ کسان سال بھر میں فی ایکڑکیا کما لیتا ہے۔ وسطی پنجاب میں بڑی جاگیریںنہیں۔ آموںکے باغات بھی کم ہیں جن سے وسیع آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔ پنجاب کے ننانوے فی صد کسان بہت کم زمین کے مالک ہیں، خود میرے پاس پچھلے ستر برس سے صرف دو ایکڑ زرعی موروثی زمین ہے۔ اس میں کوئی کمی تو ہوئی ہو گی،اضافہ ایک انچ کا نہیںہو سکا۔
میرا شہباز شریف اور ان کے دور کے صوبائی ارکان اسمبلی سے سادہ سا سوال ہے کہ کیا پنجاب کا کسان ڈالر میں کمائی کرتا ہے۔ کیا پنجاب کے کھیت سونا اگلتے ہیں ، کیا پنجاب میں زعفران کاشت کیا جا تا ہے۔ان سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک ملک میںانکم ٹیکس کے دو معیار کیوں ہیں۔ ملازم طبقے کے لئے سالانہ چھ لاکھ کی کمائی پر انکم ٹیکس اور کسان کی صرف اسی ہزار کی سالانہ آمدنی پر ٹیکس۔ کیا یہ دوہرا معیار کسی کو نظر نہیں آیا۔ اور کیا پنجاب کے بورڈ آف ریونیو کو بھی یہ دوہرا معیار نظر نہیں آیا، یہ صرف دوہرا معیار ہی نہیں بلکہ ظلم ہے۔ شقاوت ہے، ٹیکس کی دہشت گردی ہے جس کا نشانہ پنجاب کے کسان کو بنایا جا رہا ہے۔ عام کسان تواس ظلم زیادتی اور دہشت گردی کے خلاف نہ آواز اٹھا سکتا ہے۔ نہ کسی عدالت میں جا سکتا ہے کہ اس کی جیب میں وکیلوںکی بھاری فیسوں کے لئے کوئی جمع پونجی نہیںہوتی۔ اسے تو اگلی فصل کے لیئے بیج۔ کھاد بھی بنکوں کے چھوٹے قرضے لے کر خریدنی پڑتی ہے۔ ہاں کچھ بڑے زمیں دار عدالتوں میں ضرور گئے اور دو ہزار بارہ سے دو ہزار اٹھارہ تک سر ٹکراتے رہے مگر پچھلے چیف
جسٹس آف سپریم کورٹ جاتے جاتے ان اپیلوں کو خارج کر گئے اور حکم جاری کر گئے کہ کسانوں سے ماضی کی تاریخ سے یہ صوبائی زرعی انکم ٹیکس وصول کیا جائے۔ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا یااندھے کو کیا چاہئے دو آ نکھیں۔ یا حافظ جی کو حلوہ یا بھوکے کے لیے دو جمع ووچار روٹیوں کے مصداق موجودہ پنجاب حکومت نے موقع غنیمت جا نا اور خالی لٹی ہوئی تجوری بھرنے کے لئے ایک ماہ سے کسانوں کو اس ٹیکس کی ادائیگی کے لئے نوٹس پہ نوٹس جاری کئے جا رہے ہیں۔اس رفتار سے میزائل بھی نشانے پر نہیںبیٹھتے جس رفتار سے یہ نوٹس کسانوں کے گھروں میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ کبھی رات کو بارہ بجے دروازے پر دستک دی جاتی ہے اورچار پانچ ایسے لوگ جن کا تعلق کسی طرح بھی پنجاب حکومت سے نہیں بلکہ یہ کوئی پرائیویٹ گسٹاپو فورس کے لوگ ہوتے ہیں جو ایک نوٹس دے کر ا سکی وصولی پردستخط کے لئے مجبور کرتے ہیں۔ اس نوٹس پر لال رنگ کی ایک مہر ثبت ہوتی ہے کہ یہ فائنل نوٹس ہے اورادائیگی کے لئے زیادہ سے زیادہ تین دن دیئے جاتے ہیں۔ کل جمعرات کو تو مجھے ایسے نوٹس وصول کرانے کی کوشش کی گئی جن کی تاریخ ادائیگی گزر چکی تھی۔ اس پر میںنے نوٹس جاری کرنے والے اے سی ماڈل ٹائون سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا اور سہہ پہر کو جب ساری کچہری بند تھی مگر وہ دفتر میں تشریف رکھتے تھے، میں نے ان کے کمرے میں چٹ بھجوائی جس کے بعد گھنٹوں پر گھنٹے گزرتے چلے گئے۔ میری عصر کی نماز بھی نکل گئی اور مغرب کی بھی قضا ہو رہی تھی۔اس پر میںنے اخبار نویس برادری سے مدد مانگی کہ میں ایک صوبائی افسر کو فریاد سنانے بیٹھا ہوں تاکہ میں ان سے پوچھ سکوں کہ انہوںنے ابھی ابھی مجھے جو نوٹس بھیجے ہیں۔، ان کی ادائیگی کی تاریخ گزر چکی ہے تو میں اب کیا کروں۔ انتظار کی کوفت نے میرا سر چکرا دیااورمیری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ میں ایک بر آمدے میں لکڑی کے بنچ پر اکڑوں بیٹھا تھا ۔ آخر کوئی معجزہ ہوا اور اے سی صاحب نے کسی صحافی کی کال پر مجھے اندر بلا لیا اور کہا کہ آپ مجھے بتا دیتے کہ ملنے آئے ہیں ۔میںنے کہا کہ میری چٹ تو آپ کی میز پر دھری ہے۔ خیر میں نے کہا کہ میں شکائت بعد میں کروں گا پہلے تو میں آپ کی دن رات کی کوششوںکی تعریف کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے صوبائی حکومت کے خزانے کی کمی کو دور کرنے کے لئے آخری حد تک جتن کیا ہے اوراس سلسلے میں
میرا یہ تاثر بھی دور ہو گیا ہے کہ پنجاب کے وزیرا علی بزدار صاحب کوئی کام نہیںکر رہے۔ اس لئے کہ جس قدر ایک ماہ کے اند رانہوںنے صوبے کے لئے صرف کسانوں سے ٹیکس اکٹھا کر لیا ہے۔ اتناتو ایف بی آر سال بھر میں اکٹھا نہیںکر پاتا۔ میں نے ان کی توجہ ان مشکلات کی طرف مبذول کروائی جو ان کے نوٹسوں کی بھر مارکی وجہ سے کسانوں کو درپیش ہیں کہ وہ ایک نوٹس کی ادئیگی کر نہیں پاتے کہ اگلا نوٹس آ جاتا ہے اور اب تک ایک ماہ میں سات نوٹس ہم لوگ بھگت چکے۔ یہ سب چھوٹے کسان ہیں۔ اور انکی ہر روز کمائی نہیں ہوتی، نہ کوئی لاٹری نکلتی ہے۔ چھ ماہ یا بارہ ماہ بعد کمائی ہوتی ہے۔ اس لئے ان سے نرمی برتی جائے ، مجھے پتہ چلا کہ وہ بھی زراعت پیشہ ہیں اور سرگودھا سے تعلق رکھتے ہیں جہاں بڑی زمیں داریاں ہیں اور انہیںبھی اسی صورت حال کا سامنا ہے وہ جوکچھ کر رہے ہیں۔ صوبے کے مفاد میں کر رہے ہیں ۔ اوپر کے احکامات کوبجا لا رہے ہیںجنہیںبدلنا ان کے بس میں نہیں۔ میں تو ان سے سوال ہی کر سکتا تھا اور وہ مجھے اپنی مجبوریاںہی بتا سکتے تھے سو ہماری گفتگو کسی نتیجے پر نہیں پہنچی۔ اور یہ کہانی کسی ایک کسان اور کسی ایک اے سی کی نہیں پنجاب کے ہر کسان اور ہر اے سی کی کہانی ہے جس نے پٹواریوں کے ذریعے اور پٹواریوںنے اپنے ذاتی لشکریوں کے ذریعے اس قدر عجلت میں صوبے بھر میں نوٹس تقسیم کئے اور ڈنڈے سے رقم وصول کی۔ ایک طرف پنجاب کے کسان کے ساتھ یہ ظلم و زیادتی دوسری طرف دکانداروں اور صنعتکاروں کو نیب بھی تسلیاںدے رہا ہے۔ ایف بی آر بھی تسلیاں دے رہاے اور خود وزیر اعظم بھی ان سے ملاقاتیں کر رہے ہیں کہ انہیں تنگ نہیں کیا جائے گا۔ ایک زمانے میں شہباز شریف نے لبرٹی میں انکم ٹیکس والوں کی ٹیم بھیجی جو مار کھا کر اور معافیاں مانگ کر واپس آئی۔
پنجاب کے کسانوں سے ٹیکس لینا ہے تو ضرور لیں ۔ ماضی کے سالوں کا بھی لیں مگر راتوں رات نہ لیں اور اس ٹیکس کے لئے آمدنی کی چھوٹ وہی دیں جو ملازم پیشہ طبقے کو دی گئی ہے ، اگر ان کے لئے ٹیکس استثنی کی حد چھ لاکھ روپے سالانہ آمدنی ہے تو پنجاب کے کسان کی کمائی کی استثنی کی حد بھی چھ لاکھ سالانہ کی جائے۔ بلکہ جس جس سال کے لئے ملازموں کو بارہ لاکھ پر استثنیٰ حاصل تھا تو ان سالوں کے لئے کسانوںکو بھی بارہ لاکھ کاا ستثنی دیا جائے۔
موجودہ صورت حال سراسر غیر آئینی، اناملی۔، زیادتی اور ظلم کے مترداف ہے اور پنجاب کے کسانوں کو تنگ آمد بجنگ آمد کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ میں پھر کہتا ہوں کہ کسان کی زمین سونا نہیں اگلتی ۔ ڈالر نہیں پیدا کرتی ۔نہ یہاں زعفران کاشت کیا جاتا ہے۔ نہ یہاں ہیرے جواہرات اگتے ہیں ، کسانوں کی مفلوک الحالی کا اندازہ ان گزیٹیئر سے بھی لگایا جا سکتا ہے جو انگریز جیسے غیر ملکی آقائوںنے لکھے تھے۔