کرونا سے بین الاقوامی معیشتوں کو نقصان پہنچنے کا تباہ کن سفربدستورجاری

اسلام آبا د( وقائع نگار خصوصی )کوروناوائرس کی عالمگیروبا سے بین الاقوامی معیشتوں کو نقصان پہنچنے کا تباہ کن سفربدستورجاری ہے ، وبا کی وجہ سے اقتصادی سرگرمیاں سست روی کا شکارہیں جبکہ وبا سے پاکستان جیسے ترقی پذیرممالک کے ساتھ ساتھ مستحکم معیشتوں والے ممالک کی جی ڈی پی پرمنفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔اس وبا نے عالمی سطح پر نہ صرف صحت اورانسانی جانوں بلکہ معیشتوں کے تقریبا تمام شعبوں کو نقصان پہنچایا ہے اورتمام ممالک اس صورتحال میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ وبا کی وجہ سے عالمی معیشت کی مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) کو 9000 ہزار ارب ڈالرکے نقصان کا سامنا ہے۔دستیاب اعدادوشمارکے مطابق اگرکورونا وائرس کی دوسری لہر سامنے نہیں آتی ہے تو اس صورت میں 2019کے مقابلے میں 2020 میں برطانیہ کی جی ڈی پی میں منفی 11.5، فرانس منفی 11.4، اٹلی منفی 11.3، سپین منفی 11.1، یوروخطہ منفی 9.1، روس منفی 8، کینیڈامنفی 8، برازیل منفی 7.4، امریکامنفی 7.3، امریکا منفی 7.3، جرمنی منفی 6.6، جاپان منفی 6، بھارت منفی 3.7 اورچین منفی 2.6 فیصد تک گرسکتی ہے، ان اعدادوشمارکو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ سال پاکستان کی جی ڈی پی میں منفی 0.4 فیصد تک کمی کا اندازہ ہے۔قومی اقتصادی جائزہ کے مطابق اس وباسے پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار(جی ڈی پی) کو 3000 ارب روب روپے کے نقصان کا اندازہ ہے۔وائرس سے قبل پاکستان کی طرف سے اقتصادی بہتری کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات کے نتیجہ میں پاکستان کی جی ڈی پی میں 3 فیصد تک اضافہ کا امکان تھا تاہم وبا کی وجہ سے یہ اب منفی 0.4 فیصد تک رہنے کاامکان ہے۔ باوثوق اورمصدقہ اعدادوشمارکے مطابق صرف اپریل کے مہینہ میں امریکا میں پہلی سہ ماہی کے دوران جی ڈی پی میں 48 فیصد اوربرطانیہ میں 20.4 فیصد کی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ یورپی یونین ، جس کاعالمی جی ڈی پی میں 20 فیصد حصہ ہے، میں گزشتہ 14 برسوں میں پہلی بار بڑے پیمانے پرکمی دیکھنے میں آئی ہے۔ عالمی بینک کے تازہ ترین جائزہ میں بیس لائن کی بنیاد پرسال 2020میں عالمی جی ڈی پی میں 5.2 فیصد کمی کی پیشنگوئی کی گئی ہے،حکومتوں کی جانب سے موثر مالیاتی اورزری اقدامات کے باوجود گزشتہ کئی عشروں میں یہ کسادبازاری کی بدترین صورتحال ہے۔عالمگیر وباکی وجہ سے سال 2020 میں کئی ممالک کسادبازاری کا سامناکریں گے، ان ممالک میں 1870 کے بعد پہلی دفعہ فی کس آمدنی میں کمی آئیگی ، ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں میں 7 فیصد تک سکڑا کا اندازہ ہے۔ عالمی بینک کے مطابق مشرقی ایشیااوربحرالکاہل کے خطہ میں صرف 0.5 فیصد کا معمولی اضافہ ہوگا تاہم جنوبی ایشیاکے خطہ کی معیشتوں میں 2.7 فیصد، سب صحارافریقی خطہ میں 2.8 فیصد، مشرق وسطی وشمالی امریکا 4.2 فیصد، یورپ اوروسطی ایشیا4.7 فیصد اورلاطینی امریکا کی معیشتوں میں 7.2 فیصد تک سکڑاوکا امکان ہے۔عالمی بینک نے خبردارکیاہے کہ ترقی یافتہ معیشتیں 7 فیصد تک سکڑا کاسامنا کرسکتی ہیں جس کے اثرات ان ابھرتی ہوئی ترقی پذیر معیشتوں کو منتقل ہوجائیں گے جن کی معیشتوں میں اوسطا 2.5 فیصد کے سکڑا کا اندازہ لگایا گیاہے۔پاکستان کی حکومت نے تیزی سے پھیلنے والی کسادبازاری پرقابوپانے کیلئے سخت اورمشکل فیصلے کرتے ہوئے معیاری حفاظتی تدابیر کے ساتھ تعمیرات، صنعت اورزراعت سمیت معیشت کے کئی اہم شعبوں کو کھول دیا، یہ شعبے اقتصادی بڑھوتری میں اہم کردارکے حامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کے غریب اورکمزورطبقات کی مشکلات کو کم کرنے کیلئے احساس کیش امداد کا وسیع ترپروگرام شروع کیا گیا۔اس پروگرام کے تحت اب تک ایک کروڑ، 1 لاکھ، 18 ہزار، 814 مستحقین میں 122.99 ارب روپے تقسیم کئے گئے ہیں۔ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت مودی حکومت کی جانب سے دنیا کے سخت ترین لاک ڈان کے نفاذ کے بعد اقتصادی مشکلات کا سامنا کررہاہے۔ بھارت کے معروف ماہراقتصادیات پرناب پردھان نے کہاہے کہ نریندرامودی نے بھارت کی معیشت اوربہتر حالات میں بھی مشکل سے روٹی کمانے والے غریب شہریوں کو ناقابل تلافی اوربے مثال نقصان پہنچایا ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق بھارت میں 24 مارچ کے لاک ڈان کے اعلان کے بعد ایک کروڑ20 لاکھ افراد فوری طورپر بے روزگارہوگئے جبکہ ایک ارب 38کروڑ کی آبادی میں سے نصف مفلسی کا شکارہوچکی ہے جن میں سے بعض فاقہ کشی کی سطح پرپہنچ گئے ہیں۔ لاکھوں نقل مکانی کرنے والے مزدوروں اور ورکروں کی مشکلات سے ہفتوں بے رحمانہ طورپرچشم پوشی کی گئی جس کے بعد حکومت نے دوماہ تک غلہ کی راشن کااعلان کیا۔انہوں نے کہاکہ زیادہ ترورکراچانک روزگارختم ہونے کے بعد بھوک کاسامنا کرنے پرمجبورہوئے، پبلک ٹرانسپورٹ کی اچانک بندش سے ان نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کو آبائی علاقوں تک پہنچنے کیلئے اپنے اہل خانہ سمیت سینکڑوں کلومیٹرتک پیدل سفرکرنا پڑا، اوراس دوران انہیں اپنے اہل خانہ بالخصوص بچوں کی اموات کا سامناکرنا پڑا ہے۔بھارتی ماہراقتصادیات نے کہاہے کہ عمومی طوپرمودی حکومت نے لاکھوں یومیہ مزدوروں اورشہری ورکروں کو نظراندازکردیاہے۔ مودی حکومت نے تقریبا دیوالیہ ہونے کے قریب ریاستی حکومتوں کو مرکزی فنڈز کی فراہمی بھی نظراندازکردی ۔انہوں نے مزید کہاکہ بھارت کو جس بڑے پیمانے پر آفت کا سامنا ہے اس کے تناظر میں حکومت نے جو معاشی اقدامات کئے ہیں وہ افسوسناک طورپربہت ہی کم یعنی جی ڈی پی کا ایک فیصد ہے۔

ای پیپر دی نیشن