عمران خان کا مخمصہ!

پاکستان کی 22 کروڑ آبادی میں معدودے چند لوگ ایسے ہونگے جنہیں Larger than life ’’امیج‘‘ ملا ہے۔ عمران خان کا شمار انہی خوش قسمت لوگوں میں ہوتا ہے۔ عمران خان کی وجہ شہرت ان کا کرکٹر ہونا ہے! حیران کن بات یہ ہے کہ ملک نے ان سے بہتر کرکٹر پیدا کئے لیکن وہ بات نہ بن سکی! خان فاسٹ بائولر تھے۔ وسیم اکرم اور وقار یونس کسی طرح بھی ان سے کم نہیں تھے! شکل و صورت کے اعتبار سے د یکھا جائے تو فضل محمود ، ماجد خان اور آفریدی کا شمار بھی خوبصورت لوگوں میں ہوتا ہے۔ تقابلی جائزہ شاید موزوں نہ ہو لیکن میڈیا نے ’’یونانی دیوتا‘‘ صرف خان کو گردانا! لاہور کی ٹریفک کے حوالے سے فضل محمود سے اکثر ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ ایک دن ازراہ تفنن پوچھا ’’خان کو تمام دنیا میں پذیرائی ملی ہے ، تمہارے حصے میں محض رسوائی آئی ہے۔ آئے دن افواہیں چلتیں کہ فلاں خاوند نے تمہاری دھنائی کر دی ہے۔ فلاں شخص کے ہاتھوں پٹائی ہوئی ہے‘‘ نہایت سنجیدگی سے بولا ‘‘ نہیں! ایسی تو کوئی بات نہیں! ہندو عورتیں میری مورتی بنا کر بھگوان کی طرح پرستش کرتی تھیں! کہنے کا مقصد یہ ہے … ؎دیرو حرم کی قید کیا جس کو وہ بے نیاز دے!خان نے مٹی کو بھی ہاتھ لگایا تو وہ اکسیر ہو گئی۔ ورلڈ کپ کی جیت کا آج تک اس لیے چرچا ہے کہ کرکٹ قوم کی سائیکی میں رچ بس گئی ہے۔ اس کا جنون خون کی طرح لوگوں کی رگوں میں دوڑتا ہے۔ اگر مگر کی گردان ا س لیے بے سود ہے کہ جیت بہرحال جیت ہوتی ہے۔ جیتا تو ہندوستان کا کپیل دیو بھی تھا لیکن وقت کی راکھ اس فتح پر پڑ چکی ہے۔ لالہ گوشہِ گمنامی میں چلا گیا ہے۔ البتہ خان نے جو ’’وکٹری اسپیچ ‘‘ کی وہ محل نظر ہے۔ جس میں ’’میں‘‘ کا آغاز اسی دن ہوا وہ ہنوز ان کے لب و لہجے میں جھلکتی ہے! جو ڈانٹ ڈپٹ کھلاڑیوں کو پڑتی تھی آجکل اس کے سزوار وزراء کرام ٹھہرتے ہیں! وہ تو شکر کریں کہ خان عددی اکثریت کے تنے ہوئے رسے پر جُھول رہا ہے اگر نواز شریف کی طرح دوتہائی اکثریت ہوتی تو ’’لگ پتے جانڑے سن‘‘ 
عمران خان ایک اعتبار سے ’’سیلف میڈ‘‘ شخص ہے۔ یہ سونے کا چمچہ لیکر پیدا نہیں ہوا۔ انکے والد اکرام اللہ خان نیازی سرکاری ملازم تھے۔ متمول گھرانہ ضرور تھا لیکن کسی طرح بھی ان پر Filthy Rich ہونے کی تہمت نہیں لگائی جا سکتی۔ پنشن کے بعد انہوں نے ایک تعمیراتی فرم کھول لی۔ گلبرگ میں دفتر تھا۔ 
ایک آرکیٹیکٹ دوست کی وساطت سے ان سے اکثر ملاقات ہو جاتی۔ سادہ لیکن زیرک انسان تھے۔ اُن دنوں خان کی شہرت کا سورج نصف النہار پر تھا اس سے اس کا ذکر چھڑنا قدرتی امر تھا۔ بظاہر یہ تاثر دیتے کہ خان کی مقبولیت کو اپنے لیے کوئی اتنا بڑا اعزاز نہیں سمجھتے۔ مدّوجزر کی طرح اگر خوشی کی کوئی لہر اُٹھتی بھی تھی تو وہ کمال ہوشیاری سے اسے سینے کے سمندر میں جذب کر لیتے ۔ بتاتے کہ عمران بچپن سے ہی ضدی اور کسی حد تک خودغرض ا نسان تھا۔ 
بلا کا کنجوس جو بہنوں کی شدید فرمائش پر بھی انہیں آئس کریم نہیں کھلاتا تھا۔ (وہ خوبی خان صاحب میں آج تک موجود ہے۔ انکے قریبی لوگ بتاتے ہیں کہ دس آدمیوں کی موجودگی میں اکیلے کھانا کھانا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی کو کام و دہن کی آزمائش میں نہیں ڈالتے) اکرام اللہ کسی حد تک متوش بھی تھے۔ انہیں یہ فکر گھلائے دیتی تھی کہ انکے بعد جائیداد اور اپنوں کو کون سنبھالے گا۔ ایک دن قدرے سرزنش کرتے ہوئے بولے ’’اگر میں چل بسا تو زمینوں کو کون سنبھالے گا؟ تمہیں تو بیٹ اور بال سے ہی فرصت نہیں ملتی‘‘ اس پر عمرات تُرت بولا۔ ’’میں بیچ دونگا! زمینیں خوش قسمتی سے بک نہیں سکیں۔ خان سیاست میں آ گیا ہے! کرکٹ سے بروقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ اس طرح اس ذلت اور رسوائی سے بچ گیا جو پاکستانی کرکٹرز کا مقدر بن چکی ہے۔ یہ بوڑھے ہو کر بھی ازخود کھیل سے دست بردار نہیں ہوتے۔ انہیں اس طرح باہر نکالنا پڑتا ہے جس طرح پاکپتن کے بابا فرید کے دربار کے بہشتی دروازے سے خدام زائرین کو باہر پھینکتے ہیں۔ 
جو چیز خان کو اپنے ہمعصرں سے منفرد اور ممتاز کرتی ہے وہ اس کا عزم بالجزم ہے۔ دُھن کا پکا ، جو چیز سر میں سما گئی وہ مشکل سے ہی باہر نکلتی ہے۔ شوکت خانم ہسپتال کا سوچا تو ناممکن کو ممکن بنا دیا۔ ملک ملک نگری نگری ، قریہ قریہ پھرا ، چندہ اکٹھا کیا۔ کنجوسی کے الزام کے باوصف جیب کو بھی ہوا کھلائی اور پاکستان کا سب سے بڑا کینسر ہسپتال بنا ڈالا جس میں غربا کی حد تک مفت علاج کیا جاتا ہے۔ چاہتا تو اسے ذاتی تصرف میں بھی لا سکتا تھا۔ ایسا نہیں کیا۔ جن لوگوں نے تلہ گنگ سے میانوالی تک کا سفر کیا ہے انہیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ شہر کے باہر ایک بہت بڑی تعلیمی درسگاہ ہے۔ بے آب و گیاہ زمین آباد ہو گئی ہے۔ نمل یونیورسٹی تعلیم کے موتی بانٹ رہی ہے…کینسر ہسپتال کا سلسلہ پشاور، کراچی اور کوئٹہ تک پھیلایا جا رہا ہے۔ جس پارٹی کو ٹانگہ پارٹی کہا جاتا تھا وہ اس وقت ملک کی سب سے بڑی پارٹی بن چکی ہے۔ تحریک انصاف کے Tanticle چاردانگ پھیل گئے ہیں۔ خان نے نہ صرف مرکز میں حکومت بنا لی ہے بلکہ پنجاب اور خیبر پی کے میں بھی پارٹی کی حکومت ہے۔ بلوچستان حکومت میں بھی حصہ بقدرِ جُثہ ہے۔ 
 مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ یہ ’’سلیکٹڈ‘‘ حکومت ہے۔ دریوزہِ گرِ آتشِ بیگانہ ۔ بالفرض یہ الزام کسی حد تک مان بھی لیا جائے تو ان سے پوچھا جا سکتا ہے۔ آپ کونسا ازخود آئے تھے؟ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں شیخو بابا کا یہ کہنا کافی حد تک درست ہے۔ ’’سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ گیٹ نمبر 4 کی پیداوار! اسی نرسری میں ہر پودے کی نشوونما ہوئی ہے۔ آج جو یہ تن آور درخت نظر آتے ہیں ، ان کی آبیاری بھی اسی چشمے سے ہوئی ہے۔ مالی سوچتا ہو گا 
؎جگر کا خون دے دیکر یہ بُوٹے ہم نے پالے نہیں 
شیکسپیئر اپنے ڈرامے میکبھ میں ایک کردار سے کہلواتا ہے :
To be thus is nothing, than to be safely a thus,
شاہی کے ساتھ ساتھ اس کی حفاظت بھی ضروری ہے وگرنہ یہ کچھ معنی نہیں رکھتی۔
…………………… (جاری)
 کیا تحریک انصاف حکومت موثر طریقے سے حکومت چلا رہی ہے؟ کیا عوام کو جو خواب دکھلایا گیا تھا اسکی حسین تعبیر نکلی ہے؟ وعدوں کا جو کوہ ہمالہ کھڑا کیا گیا تھا ، وہ پورے ہوئے ہیں۔ پچاس لاکھ مکان ، ایک کروڑ نوکریاں ، گھر گھر من و سلویٰ اُترے گا ، بجلی سستی ہو گی ، اشیائے خورد و نوش کی قیمتیں ایک عام آدمی کی پہنچ میں ہونگی …قلم میں سیاہی خشک ہو جائیگی وعدوں کی فہرست کم نہیں ہو گی!
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جائے! محض یہ کہنا کافی نہیں ہے (ن) لیگ کے دور میں کیا تھا ، پیپلز پارٹی نے کس طرح معیشت کا بیڑا غرق کیا ، حضور یہ سوال صرف دو پارٹیاں نہیں بلکہ بائیس کروڑ لوگ پوچھ رہے ہیں۔ بالفرض آپ ان پارٹیوں کی زبان بند بھی کرا دیں تو پھر بھی لوگوں کے سوالات کا جواب تو دینا پڑے گا۔ یہ درست ہے کہ موجودہ حکومت کو ورثے میں ایک بیمار معیشت ملی ہے۔ Scorched Earth Policy کے تحت پہلی حکومت آپ کی راہ میں معاشی کاٹنے بچھا گئی ہے، لیکن یہ باتیں ناکامی کا جواز نہیں بن سکتیں۔ پھر لوگ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں، کسی کو اس بات سے غرض نہیںہے کہ ڈار ڈالر کے ساتھ کیا سلوک کر گیا تھا۔
سب سے بڑی بات آپ کا تاریخی شعور ہے۔ یہ درست ہے کہ آپ نے تاریخ تو پڑھی ہے، لیکن اس سے نتائج غلط اخذ کئے ہیں۔ اب مدنیہ کی ریاست کو ہی لے لیں۔ آپ نے پاکستان کو اس میں ڈھالنے کا عزم کیا ہے۔ آپ کی نیت پر تو شک نہیں کا جا سکتا، لیکن کیا آپ کو علم ہے کہ وہ ریاست خالصتاً کتنی دیر چلی تھی۔ اس کیلئے آپ کو مشورہ ہوگا کہ مولانا مودودی کی ’’خلافت اور ملوکیت‘‘ پڑھیں جس ریاست کی آپ خوبیاں گنوا رہے ہیں، وہ تو خلفائے راشدین کے ساتھ ہی ختم ہو گئی تھی۔ اس کے بعد اسلام پھیلتا رہا۔ لوگ کثیر تعداد میں مسلمان ہوتے رہے، لیکن حکمرانوں کا وطیرہ طرز حکومت اور روش کسی طرح بھی اسلامی احکامات کی پابند نہ رہی۔ یہ ایک نازک مسئلہ ہے۔ اس پر بحث ’’پنڈورا باکس‘‘ کھول سکتی ہے۔ میاں نوازشریف یہی غلطی کرنے والا تھا۔ ایک آئینی ترمیم کے ذریعے امیرالمومنین بننا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے میاں صاحب کے پیش نظر خلیفہ کے اختیارات تھے۔ جرنیلوں اور ججوں کو ہٹانا!Corresponding oblications نہیں تھیں۔ خلفائے راشدین کیا کھاتے تھے، کیا لباس پہنتے تھے، رہائش کیلئے حجرے تھے۔ محلات نہیں۔ انہوں نے اپنی ساری جائیداد بیت المال میں جمع کرا دی۔ کیا آپ شریف برادران، زرداری وغیرہ اس کے لیے تیار ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ صرف اتنا کہہ دیتے۔ میں رسالت مآب خلفائے راشدین کے نقش قدم پر چلنے کی مقدور بھر کوشش کرونگا۔ تو کافی تھا۔
وطن عزیز میں سائل کا کوہ گراں ہے۔ مصائب کا ٹھاٹھیں مارتاہوا سمندر آپ یقیناً مقدور بھر کوشش بھی کر رہے ہیں۔ کسی قسم کی کرپشن کا ذاتی الزام بھی نہیں ہے۔ مجبوراً ہی سہی، کئی ’’یو ٹرن‘‘ بھی لینے پڑ رہے ہیں۔ ان کے لیے عذر لنگ پیش کرنا اور ہٹلر، موسو لینی کی مثالیں دینا مناسب نہیں ہے۔ آپ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ اس سے آپ کو Mindset کا پتہ چلتا ہے۔
سیاست ممکنات کا کھیل ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کے پاس اپنے ایجنڈے کی تکمیل کی مکمل تکمیل کے لیے مطلوبہ اکثریت نہیں ہے۔ کئی کرپٹ عناصر آپ کی حکومت میں شامل ہیں۔ اگر آپ ان پر ہاتھ ڈالیں گے تو حکومت نہیں رہتی۔ بالفرض صرف نظر کرتے ہیں تو Selected Accountability کا الزام لگتا ہے۔ جہانگیر ترین نے اپنی پارلیمانی طاقت ظاہر کرکے آپ کو بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ اس سیاسی دلدل سے کیسے باہر نکلیں گے۔
نوکر شاہی آپ سے کسی طور تعاون نہیں کرے گی۔ یہ کہنا غلط ہوگا کہ یہ نوازشریف کے آدمی ہیں۔ ایک بیورو کریٹ Self Centered ہوتا ہے۔ تنخواہیں آپ نے نہیں بڑھائیں، ان کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ جس تندہی، تیزی اور سرعت کے ساتھ ان کا تبادلہ کیا جاتا ہے، اس سے ان کی تضحیک ہوتی ہے اور مایوسی، بے دلی پھیلتی ہے۔
جیمز بانڈ کی طرح چومکھی نہ کھیلیں۔ اگر صوبوں کا انتظام بھی آپ نے چلانا ہے تو وزرائے اعلیٰ لگانے کا کیا فائدہ ہے۔ اپنی تمام تر توانائیاں مرکز پر مرکوز رکھیں۔
جہاں تک کووڈ 19- کا تعلق ہے کل تک حکومتی ترجمان آپ کے ’’ویژن‘‘ پر ڈونگرے برسا رہے تھے۔ آج بیماری خطرناک رفتار سے پھیل رہی ہے۔ جو ویکسین منگوائی گئی ہے، وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ بھی نہیں ہے۔ اس کا بروقت انتظام نہ کیا گیا تو بے شمار مسائل پیدا ہونگے۔

ای پیپر دی نیشن