اخبار نویس کو اور بالخصوص اخباری رپورٹر کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران شخصیات کی شکل میں معاشرے کے مختلف چہروں اور انکے کردار کے باعث معاشرے پر مرتب ہونیوالے اچھے برے اثرات کے مشاہدے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ مجھے بھی بطور اخباری رپورٹر ایسے کئی کرداروں کو دور یا نزدیک سے دیکھنے اور انکے طرز عمل کو جانچنے کا موقع ملا۔ بے شک اخبار نویس کی جھونپڑیوں کے مکینوں سے تخت نشینوں تک کسی نہ کسی حوالے اور وسیلے سے رسائی ہوجاتی ہے اس لئے اسکی آنکھ میں کسی کیلئے کوئی تعصب پیدا نہ ہو تو وہ اپنے مشاہدے کی بنیاد پر ’’جیسا ہے‘ جو ہے‘‘ کو من وعن پیش کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوتا ہے۔ بلاشبہ ایسے ہی مواقع بالخصوص سول سروس میں خدمات سرانجام دینے والے بیوروکریٹس کو بھی دستیاب ہوتے ہیں۔ انکی ذمہ داریوں کی نوعیت انہیں حکمران طبقات کے قریب سے مشاہدے کے مواقع فراہم کرتی ہے تاہم ان کیلئے قباحت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی ریٹائرمنٹ کے دو سال بعد تک بھی سروس رولز کی پاسداری میں کسی سٹیٹ سیکرٹ کو منظر عام پر لانے کے مجاز نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہائی گریڈ سول سروس سے منسلک جس بھی شخصیت کی سوانح عمری منظر عام پر آئی وہ اسکی ریٹائرمنٹ کے بعد ہی اشاعت پذیر ہوئی۔
سابق آئی جی پولیس پنجاب چودھری سردار محمد کو سوانح عمری لکھنے والے بیوروکریٹس میں سے اس لئے بھی فوقیت حاصل ہے کہ ان کا بطور بیوروکریٹ 70ء کی دہائی سے 90ء کی دہائی تک اقتدار کی راہداریوں میں طرز حکمرانی کیلئے ہونیوالی کھسرپھسر اور حکمران طبقات کی تعمیری اور تخریبی سوچوں اور منصوبہ بندیوں کا ہی وسیع مشاہدہ نہیں بلکہ وہ فہم و دانش اور علم و آگہی کے وسیع خزانے سے بھی مزین تھے۔ 1994ء کے وسط میں بیک وقت انگریزی اور اردومیں شائع ہونیوالی انکی سوانح عمری ’’جہانِ حیرت‘‘ کی کتب بینوں میں بے حد مقبولیت کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ کتاب کے ناشر محمدفیصل کو سوا سات سو صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب کی ’’الفیصل ناشران‘‘ کے پلیٹ فارم پر دوبارہ اشاعت کا اہتمام کرنا پڑا ہے۔ یہ کتاب محض سوانح عمری نہیں‘ اسکی سطر سطر اور لفظ لفظ میں آپ کو اس ارض وطن کی حفاظت اور اس کیلئے جمہوریت کے تحفظ کی بے لوث فکرمندی جھلکتی نظر آتی ہے۔ ایک پولیس افسر کی حیثیت سے چودھری سردار محمد نے سانحۂ سقوط مشرقی پاکستان کے ہر کردار کا بھیانک چہرہ بھی دیکھا‘ انکے خبثِ باطن کو بھی پرکھا اور ملک کے دولخت ہونے پر بے اختیار آنسو بھی بہائے۔ اسی تناظر میں انہوں نے جنرل یحییٰ خان کو ملک کے دولخت ہونے کا اصل مجرم گردانا۔ اسی طرح انہوں نے 1971ء کے وسط میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کے پاکستان کی معاونت سے چین کیلئے تکمیل پذیر ہونیوالے خفیہ سفارتی مشن کا بھی نہ صرف مشاہدہ کیا بلکہ اسکے سکیورٹی انتظامات کا حصہ ہونے کے باعث اس میں مقدور بھر کردار بھی ادا کیا۔ اس مشن کے نتیجہ میں ہی امریکہ اور چین کے مابین کشیدگی کی دبیز چادر کھسکی تھی اور یہ دونوں ممالک باہمی سفارتی مراسم کی بحالی کے راستے پر آئے تھے۔ چودھری سردار محمد کو اس مشن کیلئے بہترین سکیورٹی انتظامات پر اسلام آباد میں تعینات امریکی سفیر کی جانب سے تہنیتی مراسلہ موصول ہوا تو انکے دوست معروف ادیب اے حمید نے انہیں آپ بیتی لکھنے پر آمادہ کرلیا۔
بے شک چودھری سردار محمد نے اے ایس پی سے آئی جی پولیس تک اور پھر انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ کی حیثیت سے ملک کے ٹوٹنے‘ بکھرنے‘ ازسرنو استوار ہونے‘ مارشل لائوں کے آسیب سے ملک اور عوام کا مقدر بگڑنے‘ باربار جمہوریت کی درگت بننے اور پھر جمہوری سلطانوں کے ہاتھوں جمہور کے راندۂ درگاہ ہونے کا جس باریک بینی کے ساتھ مشاہدہ کیا اور اس پر کڑھنے کے عمل سے بھی گزرے‘ اس ناطے سے انکی ایک مستند محقق اور مؤرخ کی حیثیت بھی ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ملک اور جمہوریت کی بقاء کیلئے انکی فکرمندی کا اندازہ اس سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ وہ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران اپنی سروس کے دوران بھی جمہوریت کے اوصاف اجاگر کرتے ہوئے عوامی حلقوں میں ہی نہیں‘ بیوروکریسی کی صفوں میں بھی ذہن سازی کا کٹھن کام سرانجام دیتے رہے۔
چودھری سردار محمد سے میری نیاز مندی کا آغاز بھی 80ء کی دہائی میں ہوا تھا جب میں نوائے وقت کی رپورٹنگ ٹیم کا رکن تھا اور ضیاء مارشل لاء کے مخالف سیاسی اتحاد ایم آر ڈی اور اسی طرح اعلیٰ عدلیہ اور وکلاء تنظیموں کی بطور بیٹ رپورٹر کوریج کیا کرتا تھا۔ ایک موقع پر سیکرٹریٹ کی بیٹ بھی میرے پاس آگئی تو وہاں موجود بیوروکریٹس اور مختلف محکموں کے سربراہان کے معاملات کے مشاہدے کا بھی مجھے موقع ملا۔ چودھری سردار محمد اس وقت ایڈیشنل آئی جی پولیس تھے۔ ان سے میرے کولیگ رحمت علی رازی نے میرا تعارف کرایا۔ میرے سینئر کولیگ طارق اسماعیل (بھاجی) کی تو انکے ساتھ بے باکی والی دوستی تھی۔ ان دونوں حضرات کے طفیل میری بھی انکے ساتھ تعلقداری استوار ہو گئی اور اس تعلقداری کو مہمیز ہمارے سینئر کولیگ حسنین جاوید کے چودھری سردار محمد کے ہم زلف ہونے کے ناطے لگی۔ حسنین جاوید بھی اپنی طبع اور وضح کی منفرد شخصیت تھے۔ نوائے وقت میں انکی سروس کا آخری عرصہ ایڈیٹوریل سیکشن میں گزرا۔ گھر گرہستی سے بے نیاز قلندرانہ زندگی بسر کرتے تھے جس کے بہت سے غلط سلط قصے بھی مشہور ہوتے رہے۔ ان کا انتقال بھی چودھری سردار محمد اور معروف فلم ایکٹر محمدعلی کے ساتھ گاڑی میں سفر کے دوران ہوا اور انہوں نے اداکار محمدعلی کی گود میں ہی آخری ہچکی لی۔ چودھری سردار محمد انکی میت میسن روڈ پر واقع اپنے گھر میں لے آئے۔ وہیں سے ان کا جنازہ اٹھا اور سپرد خاک ہوئے جبکہ چودھری سردار محمد اور اداکار محمدعلی اپنی زندگی کے آخری لمحات تک حسنین جاوید سے وابستہ اپنی یادیں تازہ کرتے رہے۔ آج چودھری سردار محمد بھی آسودۂ خاک ہیں اور انکی یادیں انکی کتاب ’’جہانِ حیرت‘‘ کے دوسرے ایڈیشن کے ذریعے تازہ ہورہی ہیں جس کی اشاعتِ نو کا سہرا ہمارے سینئر کولیگ اسداللہ غالب کے سر جاتا ہے جو چودھری سردار محمد کی علم اور وطن دوستی کی حدت سے ہر علم دوست اور وطن دوست کو پیوستہ کرنے کے جذبے سے مالامال ہیں۔ جہانِ حیرت کے بارے میں محترم مجید نظامی کا یہ تجزیہ برحق ہے کہ جس نے یہ کتاب نہیں پڑھی‘ وہ اپنے آپ کو پہچان نہیں سکتا۔
٭…٭…٭