نئے بجٹ کے نمایاں خدوخال

نئے وفاقی بجٹ پر سب سے دلچسپ تبصرہ پیپلز پارٹی کے بلاول نے کیا ہے  انہوں نے کہا ہے لگتا ہے کہ وزیر خزانہ پاکستان کے لیے نہیں کسی اور ملک کے لیے بجٹ پیش کر رہے ہیں ۔بالکل بجا فرمایا بلاول بھٹو نے کیونکہ واقعی یہ بجٹ اس پاکستان کے لیے نہیں جس میں لاڑکانہ کی سڑکیں  اور گلیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوگئیں ،یہ بجٹ صحیح معنوں میں نئے پاکستان کے لیے ہے ۔جس کا تصور بلاول بھٹو کے ذہن میں نہیں آسکتا ۔دوسرا بے لاگ تبصرہ ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے کیا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ پہلا بجٹ ہے جو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا نہیں ہے اور یہ صحیح معنوں میں عوام کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے والا بجٹ ہے ۔
آئیے وزیر خزانہ کی تقریر کے ایک اہم حصے پر غور کرتے ہیں جو بلاول بھٹو اور چوہدری شجاعت کے تبصروں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 
جمعہ کو قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سالء کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ عمران خان نے جب حکومت سنبھالی تو انہیں شکستہ معیشت ورثہ میں ملی، ایک طرف ہمیں قرضوں کی وجہ سے دیوالیہ پن کی صورتحال کا سامنا تھا اور دوسری طرف درآمد کی طلب کو پورا کرنے کے لئے رقوم میسر نہیں تھیں۔ یہ صورتحال مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت کی جانب سے بغیر سوچے سمجھے قرض لینے کی وجہ سے پیدا ہوئی۔ گزشتہ حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی معاشی نمائشی ترقی زیادہ شرح سود پر ملکی اور بیرونی ذرائع سے بہت زیادہ قرضے لینے کی وجہ سے تھی اور قرضے لینے کی ذمہ داری ہمارے اوپر آگئی۔ ماضی میں شاید ہی کسی نئی حکومت کو ایسی مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت ہم نے حکومت سنبھالی اس وقت کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 20 ارب ڈالر کی تاریخی بلند ترین سطح پر تھا۔ درآمد تقریباً 56 ارب ڈالر اور برآمدات 25 ارب ڈالر تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ اہم فصلوں کی پیداوار میں تاریخی اضافہ سے کسانوں کو 3100 ارب روپے کی آمدنی ہوئی جبکہ گزشتہ سال یہ آمدن 2300 ارب روپے تھی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ احساس پروگرام کے تحت 40 فیصد سے زائد لوگوں کو نقد امداد دی گئی، کوویڈ 19 کے باوجود گزشتہ ایک سال میں فی کس آمدنی میں اوسطاً 15 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں ٹیکس وصولی 4ہزار ارب روپے کی نفسیاتی حد عبور کر چکی ہے۔ ریفنڈ کی ادائیگی گزشتہ سال کی نسبت 75 فیصد زائد ہے۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں میں تین لاکھ بارہ ہزار کا اضافہ کیا ہے جنہوں نے 51 ارب روپے کے ٹیکس ریٹرن ادا کئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس سال برآمدات میں 14 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترسیلات زر میں 25 فیصد ریکارڈ اضافے کی وجہ سے یہ ذخائر 29 ارب ڈالر تک پہنچنے کے قریب ہیں جو سمندرپار پاکستانیوں کی وزیراعظم عمران خان کی قیادت پر اعتماد کا مظہر ہے۔ سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر 16 ارب ڈالر ہیں جو 3 ماہ سے زیادہ کی درآمدی بل کے لئے کافی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں روپے کی قدر میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں خام تیل کی قیمتوں میں دنیا میں 180 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ملکی سطح پر ان کی قیمتیں صرف 45 فیصد بڑھیں۔ انہوں نے بتایا کہ سرکاری قرضے میں اب کمی آنا شروع ہوگئی ہے۔ اگلے تین سالوں میں ٹیکس کے نظام میں شفافیت اور بہتری لانے کی وجہ سے سرکاری قرضے میں مزید کمی آئے گی اور اسے پائیدار سطح پر لانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اعلان کرتے ہوئے انہیں خوشی ہے کہ اب معیشت کے استحکام کا مرحلہ کافی حد تک مکمل ہو چکا ہے۔ بجٹ میں جامع اور پائیدار نمو کا حصول ہمارا محور ہوگا۔ اگلے سال کے لئے ہم نے معاشی ترقی کا ہدف 4.8 فیصد رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کامیاب پاکستان پروگرام کے تحت کم آمدن ہاؤسنگ کی مد میں 20 لاکھ روپے تک سستے قرضے دیئے جائیں گے۔ ہر گھرانے کو صحت کارڈ دیا جائے گا۔ ہر گھرانے کے ایک فرد کو مفت تکنیکی تربیت دی جائے گی۔ ہر کاشتکار گھرانے کو کاشت کے لئے ہر فصل کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپے کا سود سے پاک قرضہ دیں گے اور ٹریکٹر اور مشینی آلات کے لئے دو لاکھ روپے قرض دیا جائے گا۔ ہر شہری گھرانے کو کاروبار کے لئے پانچ لاکھ روپے تک سود سے پاک قرض دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری آبادی کا 65 فیصد حصہ 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ اگلے دو سے تین سالوں میں کم سے کم 6 سے 7 فیصد نمو یقینی بنانا چاہتے ہیں جس سے نوجوانوں کو روزگار ملے گا اور وہ خوشحال زندگی گزار سکیں گے۔ اس مقصد کے لئے صنعت ،برآمدات ، ہائوسنگ و تعمیرات، کمزور طبقات کے لئے سماجی تحفظ کے پروگرام اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ زراعت کے شعبے میں جامع منصوبہ ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت بیج، کھاد، زرعی قرضے، ٹریکٹر اور مشینری ، کولڈ ویئر ہائوسز کی تعمیر اور فوڈ پراسیسنگ انڈسٹری میں مدد کی جائے گی۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں احساس پروگرام کے لئے 260 ارب روپے تجویز کئے گئے ہیں۔ صنعت اور برآمدات کے لئے خصوصی کوششیں کی جائیں گی۔ کم آمدن گھرانوں کو اپنا گھر خریدنے یا بنانے میں مدد کے لئے تین لاکھ روپے سبسڈی دی جارہی ہے اس مقصد کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ بنکوں سے 100 ارب روپے کی فراہمی کی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے 70 ارب روپے کی فراہمی کی منظوری دے دی گئی ہے اور اس کی ادائیگی شروع ہو گئی ہے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ مختلف سروسز پر منافع کا مارجن کم ہے اور عائد ودہولڈنگ شرح بہت زیادہ ہے جس سے ان کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 
تجویز ہے کہ آئل فیلڈ سروسز، ویئر ہائوسنگ سروسز، کولیکٹرل مینجمنٹ سروسز، سیکیورٹی سروسز اور ٹریول اینڈ ٹور سروسز پر ودہولڈنگ ٹیکس شرح کو آٹھ فیصد سے کم کرکے تین فیصد تک کردیا جائے۔۔ شوکت ترین نے بتایا کہ موبائل سروسز پر موجودہ ودہولڈنگ ٹیکس شرح 12.5 فیصد ہے۔ عام شہری پر بوجھ کو کم کرنے کے لئے تجویز ہے کہ اگلے مالی سال کے لئے اس شرح کو کم کرکے 10 فیصد کردیا جائے۔ تجویز ہے کہ اس کو بتدریج 8 فیصد تک کم کردیا جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اعلان کیا کہ معاشی حالات میں بہتری آئی ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لوگوں کی قوت خرید بھی متاثر ہوئی ہے اس لئے سرکاری ملازمین اور پنشنرز کے لئے اقدامات کا اعلان کیا جاتا ہے جس کے مطابق یکم جولائی 2021ء سے تمام وفاقی سرکاری ملازمین کو دس فیصد ایڈہاک ریلیف الائونس دیا جائے گا۔ یکم جولائی سے پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ اردلی الائونس 14 ہزار روپے ماہانہ سے بڑھا کر 17500 کردیا جائے گا۔ 
تو قارئین یہ ہے وزیر خزانہ کی تقریر کا کچھ حصہ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ بجٹ بلاول کے  پرانے پاکستان کا نہیں ہے اور شجاعت حسین کے بقول اس میں اعدادو شمار تو ہیں لیکن وہ فلاحی اقدامات کے عکاس ہیں اور اردلی اور سرکاری ملازمین  تک کو سمجھ آجاتی ہے کہ اعداد و شمار ان کی قسمت کی لکیر کو کس طرح نمایاں کر رہے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن