پنجاب اسمبلی میں سپیکر اور اپوزیشن بنچوں کا نیا ہنگامہ

سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور اپوزیشن بنچوں کی جانب سے چیف سیکرٹری پنجاب اور آئی جی پولیس پنجاب کی پنجاب اسمبلی کی آفیشل گیلری میں عدم موجودگی پر اٹھائے گئے اعتراض سے پیدا ہونیوالے تنازعہ کے باعث پیر کی شب حکومت مالی سال 2022-23 ء کا بجٹ اجلاس میں پیش نہ کر سکی۔ سپیکر نے ایوان میں دو گھنٹے کی بحث و تکرار کے بعد چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس کو ایوان میں پیش ہو کر ہائوس سے معافی مانگنے کی رولنگ دیکر اجلاس منگل کی دوپہر ایک بجے تک ملتوی کر دیا جبکہ منگل کے روز بھی اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہ ہو سکا اور سپیکر و اپوزیشن ارکان کی جانب سے حکومت کو پیغامات بھجوائے جاتے رہے کہ جب تک چیف سیکرٹری اور آئی جی پولیس پنجاب ایوان میں آکر ہائوس سے معافی نہیں مانگیں گے‘ اجلاس میں بجٹ پیش نہیں ہونے دیا جائیگا۔ منگل کے روز سپیکر پنجاب اسمبلی کے حکم پر میڈیا کو بھی ہائوس کے اندر داخل ہونے اور پریس گیلری میں جانے سے روک دیا گیا۔ 
پیر کی شب پنجاب اسمبلی کے ایوان میں اس وقت بھی بدمزگی پیدا ہوئی جب اپوزیشن کی جانب سے صوبائی وزیر عطاء اللہ تارڑ کی ہائوس میں موجودگی پر اعتراض کیا گیا اور اسمبلی کا رکن نہ ہونے کے ناطے انہیں ہائوس میں اجنبی قرار دیکر سپیکر سے انہیں ہائوس سے باہر نکالنے کا تقاضا کیا گیا۔ سپیکر نے عطاء اللہ تارڑ کو ہائوس سے باہر جانے کا حکم دیا اور انکے باہر نہ جانے پر سارجنٹ ایٹ آرمز کو انہیں ہائوس سے باہر نکالنے کا حکم دیا جس پر حکومتی ارکان نے عطاء اللہ تارڑ کے گرد حصار قائم کرلیا جبکہ اپوزیشن ارکان اس دوران ’’گوتارڑ گو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ سپیکر نے اجلاس دس منٹ کیلئے ملتوی کیا جو عطاء اللہ تارڑ کے باہر جانے پر سوا گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا۔ 
پیر کے روز گورنر پنجاب کا طلب کردہ پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس ویسے ہی مقررہ وقت دوپہر دو بجے کے بجائے چھ گھنٹے دس منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا اور سپیکر پرویز الٰہی کی زیرصدارت جب اجلاس کا آغاز ہوا تو اپوزیشن بنچوں کی جانب سے راجہ بشارت نے وزیراعلیٰ‘ چیف سیکرٹری‘ آئی جی اور دوسرے صوبائی سیکرٹریوں کی ایوان میں عدم موجودگی کی نشاندہی کی اور سپیکر سے کہا کہ جب تک وزیراعلیٰ اور بیوروکریسی کے ارکان ایوان میں نہیں آتے اس وقت تک اجلاس میں بجٹ پیش کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ سپیکر چودھری پرویز الٰہی نے اپوزیشن ارکان کے اس موقف کو درست قرار دیا جبکہ اپوزیشن نے اپوزیشن کے بعض ارکان اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کے ملازمین کیخلاف درج مقدمات کی واپسی بھی بجٹ پیش کرنے کے ساتھ مشروط کر دی۔ 
پنجاب کابینہ نے صوبے کے سال 2022-2023ء کے بجٹ کی جس دستاویز کی منظوری دی اسکے مطابق پنجاب کے مجوزہ بجٹ کا حجم 3229 ارب روپے ہے جس میں ترقیاتی بجٹ کیلئے 685 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ مجوزہ بجٹ میں جو ٹیکس فری قرار دیا گیا ہے‘ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 15 فیصد اور پنشن میں پانچ فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے جبکہ مخصوص سرکاری محکموں کے ملازمین کو پندرہ فیصد ڈسپیرٹی الائونس بھی ملے گا۔ اس طرح ان محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ ہوگا۔ بجٹ میں کم از کم اجرت 25 ہزار روپے تجویز کی گئی ہے۔ مجوزہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کیلئے 315 ارب روپے اور پولیس کیلئے 150 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ بجٹ دستاویز کے مطابق غریبوں کیلئے بجلی کے بلوں کی مد میں 15 ارب روپے کی سبسڈی دی جائیگی اور دو سو یونٹ تک کے صارفین کو آئندہ تین ماہ تک بل نہیں آئیگا۔ وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے بقول پنجاب کا بجٹ سیاسی و انتظامی ٹیم کی مشاورت سے تیار کیا گیا ہے جس میں عوام کیلئے حقیقی ریلیف کے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امور حکومت کی انجام دہی سالانہ بجٹ کے ساتھ ہی منسلک ہوتی ہے جس میں ترقیاتی فنڈ کے علاوہ محکمہ جاتی فنڈز بھی مختص ہوتے ہیں۔  اسی طرح سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کا اجراء بھی سالانہ بجٹ کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے اور سرکاری اداروں کے جملہ فرائض بھی بجٹ میں ان کیلئے مختص رقوم کی بنیاد پر ہی سرانجام پاتے ہیں چنانچہ ہر مالی سال کا آغاز بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہوتا ہے جبکہ کسی منتخب ایوان کا یہی بنیادی فریضہ ہے کہ وہ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی بجٹ دستاویز کی من و عن یا ردوبدل کے ساتھ منظوری دے کر مالی سال کا آغاز کرے۔ کسٹوڈین آف دی ہائوس کی حیثیت سے سپیکر کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ فنانس بل کے پیش اور منظور ہونے کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہونے دیں۔ اس حوالے سے آئین کی دفعات 118 سے 122 تک میں صوبائی اسمبلی میں بجٹ پیش کرنے کے پروسیجر سمیت بجٹ اجلاس سے متعلق تمام معاملات کی وضاحت کر دی گئی ہے۔ 
بدقسمتی سے سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد بالخصوص حکومتی اکابرین کی جانب سے متعلقہ آئینی تقاضوں سے روگردانی کا جو سلسلہ قومی اسمبلی سے شروع ہوا وہ پنجاب اسمبلی میں نکتۂ عروج کو پہنچ گیا اور گزشتہ تین ماہ سے یہی کھیل جاری ہے۔ اس میں آئین و قانون اور عدالتی فیصلوں سے کھلواڑ کا سپیکر‘ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی اور پھر وزیراعظم اور صدر مملکت سے آغاز ہوا جس کے بعد سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی اور گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ نے آئین و قانون سے روگردانی اور عدالتی فیصلوں سے انحراف کی انتہاء کر دی۔ پہلے وزیراعلیٰ کے انتخاب اور انکی حلف برداری میں روڑے اٹکائے گئے اور اب پنجاب اسمبلی میں سالانہ بجٹ پیش اور منظور کرنے کے آئینی تقاضے کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو بادی النظر میں پورے سسٹم کے ساتھ کھلواڑ کرنے کے مترادف ہے۔ آئین کی متعلقہ دفعات میں کہیں یہ درج نہیں کہ بیوروکریسی کے لوگ ایوان کی مخصوص گیلری میں موجود نہیں ہونگے تو ہائوس میں بجٹ پیش ہی نہیں کیا جائیگا۔ اسی طرح گزشتہ روز اپوزیشن ارکان کے کہنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی کی جانب سے صوبائی وزیر عطاء اللہ تارڑ کو سارجنٹ ایٹ آرمز کے ذریعے ہائوس سے باہر نکلوانے کا اقدام بھی انکی جانب سے اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ آئین و قانون کے تحت کسی غیررکن اسمبلی کوو زیر یا مشیر مقرر ہونے کے بعد اپنے اس منصب کی بنیاد پر ہائوس کے اندر بیٹھنے کا حق حاصل ہے اور یہ حق وہ چھ ماہ کے اندر اندر ہائوس کا رکن منتخب ہونے تک استعمال کرنے کا مجاز ہے۔ اسی بنیاد پر حفیظ اللہ شیخ وزارت خزانہ کا قلمدان سنبھالنے کے بعد قومی اسمبلی یا سینٹ کا رکن نہ ہونے کے باوجود ہائوس میں بیٹھتے رہے اور انہوں نے ہائوس میں بجٹ بھی پیش کیا۔ 
اگر پنجاب اسمبلی میں ان تمام معاملات میں اخلاقی‘ جمہوری اور قانونی و آئینی تقاضوں کو پامال کیا جارہا ہے تو بادی النظر میں ایسا کسی مخصوص ایجنڈے کے تحت سسٹم کو نقصان پہنچانے کے نقطہ نظر سے ہی کیا جارہا ہے جبکہ اس سے سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنیوں میں تبدیل کرنے کے راستے بھی ہموار کئے جارہے ہیں جو شائستگی اور رواداری کی سیاست میں کسی صورت بھی قابل ستائش قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
اندریں حالات بہتر یہی ہے کہ آئین و قانون کے تقاضے نبھاتے ہوئے سسٹم کو جمہوری اقدار کے مطابق چلنے دیا جائے اور ماورائے آئین اقدامات والی سوچ کے ذریعے اس کا مردہ خراب کرنے کی کوشش نہ کی جائے کیونکہ اس کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...