پیشتر اسکے کہ 25 مئی کے دھرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کے پانچ رکنی فاضل بینچ کا جو فیصلہ آیا ہے اس پر اسکی صحت کے حوالے سے کوئی بات کی جائے، قارئین کیوں نہ آپکی دلچسپی کی خاطر اپنے فیس بْک کے ایک دوست ذیشان الحسن عثمانی کی ٹائم لائن پر موجود ایک واقعہ آپ سے شئیر کیا جائے جو شائد ہر اس ذی شعور شخص کا ضمیر جھنجھوڑنے میں مددگار ثابت ہو جو ان نام نہاد دھرنوں کی آڑ میں ہر آئے دن نہ صرف قومی املاک کا نقصان کرتے، شہری حقوق کا استحصال کرتے ،بلکہ یہ خاکسار تو یہاں تک کہے گا کہ انسانیت کا قتل کرتے کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ محترم دوست لکھتے ہیں کہ یہ دس گھنٹے کی ایک فلائٹ تھی جو جنوبی کوریا کے شہر سیول سے امریکہ کے شہر سان فرانسسکو کی طرف محو پرواز تھی۔ پرواز کی اڑان کے ساتھ ہی ایک خاتون اپنے چھوٹے سے بچے کو گود میں پکڑے اْٹھتی ہے اور ہر سیٹ پر جا کر فرداً فرداً ہر مسافر کو ایک پلاسٹک کا بیگ تھماتی ہے جس میں ایک عدد کینڈی، ایک چیونگم اور اِیئر پلگ کی ایک جوڑی اسلئے استعمال کیلئے رکھی گئی ہے تا کہ دوران پرواز جب اسکا چار سال کا بچہ چیخنا چلانا شروع کرے تو لوگ ان کے استعمال سے جس حد تک ممکن ہو اپنے آپکو شانت رکھ سکیں۔
اس بیگ میں ان چیزوں کے ساتھ کاغذ پر لکھا ایک میسج بھی ہے جو کچھ اسطرح ہے ‘‘ ہیلو! میرا نام ‘‘ جین لو’’ ہے اور میری عمر چار ماہ ہے اور میں اپنی ماں اور نانی اماں کے ساتھ اپنی خالہ سے ملنے امریکہ جا رہا ہوں۔ میں تھوڑا سا ڈرا ہوا اور تھوڑا سا پریشان ہوں اسلیے یہ کسی حد تک ممکن ہے کہ دوران پرواز میرے رونے سے آپکے لیئے پریشانی پیدا ہو کیونکہ یہ میری زندگی کا پہلا ہوائی سفر ہے۔ میری حتی الا مکان کوشش ہو گی کہ میں پرسکون رہوں لیکن پھر بھی میں اسکا وعدہ نہیں کر سکتا لہذا اگر میری آواز یا چیخ ضرورت سے زیادہ اونچی ہو جائے تو برائے مہربانی ان چیزوں کا استعمال کر لیں تا کہ کسی حد تک یہ آپکو شانت رہنے میں مدد دیں۔ ایک دفعہ پھر معذرت اور اس خواہش کے ساتھ کہ آپکا سفر خیریت سے گزرے اور آپ اس فلائٹ کو انجوائے کریں، آپ سب کی برداشت کا پیشگی شکریہ۔
جی میرے پاکستانیو! یہ قصہ ایک ایسے ملک کا ہے جو آپکے آزادی حاصل کرنے کے ٹھیک ایک سال بعد 15 اگست 1948ء کو آزادی حاصل کرتا ہے اور آج دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اپنا ایک تشخص بنا رہا ہے جبکہ ہم آج ذلت کے اس مقام پر کھڑے ہیں کہ کشکول لیئے ہر ایک ملک کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں کہ کہیں سے قرض کی بھیک مل جائے لیکن رسوائی ہے کہ اب اس نے ہماری اقدار اور ہمارے ظرف کا اندازہ لگا کر ہمارے گھر کا ایسا راستہ دیکھ لیا ہے کہ اب اسے کہیں اور جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی اور قارئین آپکو ہمارے ان دو ممالک میں اس فرق کی وجہ بھی سمجھ ا ٓرہی ہو گی۔
اس کالم کا ابتدائیہ اس خاکسار نے پچھلے ہفتے شروع کیا تھا لیکن خرابیء صحت کی وجہ سے کالم مکمل نہ کرسکا۔ ویسے بھی ان دھرنوں کی سیاست کی وجہ سے پیدا ہونے والے سماجی معاشرتی معاشی اور انتظامی مسائل اور انکے ادراک بارے سپریم کورٹ کے ایک نہایت ہی فاضل جج جناب قاضی فائز عیسیٰ نے فیض آباد دھرنا کیس میں جو فیصلہ لکھ چھوڑا ہے خاکسار سمجھتا ہے کہ اسکے بعد کوئی اور کیس کسی بھی توجیہہ کی بنیاد پر سْننے کی گنجائش ہی نہیں رہتی کیونکہ سوشیالوجی کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے میرے نزدیک آزایئٔ رائے کا حق صرف انکا بنتا ہے جو اپنے سے پہلے دوسرے شہریوں کے حقوق کی پاسداری کرتے ہیں۔
کالم لکھ رہا ہوں کہ مجھے ڈاکٹر ظہیر میر جو علی ہجویری فری ڈرگ بینک کے روحِ رواں ہیں کا ایک پیغام آیا ہے جسکا مضمون کچھ یوں ہے حضرت داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ ایثار و قربانی کے ضمن میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے شیخ حمادی سرخسی رحمتہ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ کی توبہ کس طرح ہوئی تھی ؟انہوں نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ میں ایک مرتبہ سرخس سے باہر جنگل کی طرف چلا گیا ایک مدت تک اپنے اونٹوں کے ساتھ وہاں پر رہا۔ میری عادت رہی تھی کہ جس دن میں اپنے حصے کا کھانا کسی مسافر کو کھلا دیتا وہ دن میرے لیے بہت ہی خوشی کاباعث ہوا کرتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک شیر آیا اور میرے اونٹ کو چیر پھاڑ کر ایک بلندی پر جا بیٹھا اور زور سے چنگھاڑہ ، شیرکی اس گرج کو سن کر ارد گرد سے قسم قسم کے جانور بشمول لومڑ ،گیدڑ، بھیڑیئے وغیرہ ارد گرد سے نکل آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اب کہ تمام جانور اونٹ کا گوشت مزے سے کھانے میں مشغول ہوگئے، جب وہ سب سیر ہو کر چلے گئے تو شیر نیچے اتر آیا تاکہ وہ بھی کچھ کھا لے،اسی اثنا میں ایک لنگڑی لومڑی آتی ہوئی دکھائی دی، شیر اسے دیکھ کر پھر واپس چلا گیا جب وہ بھی کھا کر چلی گئی تو شیر نیچے آیا اور اس نے بھی تھوڑا سا گوشت کھایا۔ میں دور بیٹھا ہوا یہ سب دیکھ رہا تھا کہ اسی ا ثناء میں شیر میری طرف آیا۔ اللہ نے اسے قوت گویائی عطا فرمائی اور وہ مجھ سے یوں مخاطب ہوا کہ اے احمد ! لقموں کا ایثار کرنا بھی کوئی ایثار ہے،لقموں کا ایثار تو حیوان بھی کر سکتے ہیں تْو تو انسان ہے! تجھے لائق ہے کہ اپنے ایثار میں انسانیت کا ثبوت دے۔ شیخ حماد سرخسی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب میں نے شیر کی یہ باتیں سنیں تو مجھ پر ایثار کے اسرار کھلے اور میں نے زندگی کے تمام معاملات سے توبہ کر لی اور یہی میری زندگی کا پہلا دن تھا۔
قارئین اس کے بعد راقم کو کچھ نہیں کہنا ہم میں سے ہر کوئی اس بابت اپنا خود احتساب کر لے کہ ان دھرنوں کی سیاست اور اسکے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اور مشکلات کی وجہ سے ہم ایثار اور انسانیت کے کس درجہ پر کھڑے ہیں تو شائد سپریم کورٹ کے کسی اور فیصلہ کی ضرورت ہی نہ رہے۔