وفاقی، صوبائی بجٹ اور پریشان حال عوام

 بجٹ اور رماہ ِ مضان کے آنے سے پہلے ہی پاکستان میں مہنگائی کے طوفان اٹھنا ایک روایت بن چکی ہے اور عوام کے دل بھی تیزی سے دھک دھک کرنے لگے جاتے ہیں۔ موجودہ حکومت سے اس ملک کے عوام پہت سی توقعات اور امیدیں رکھے ہوئے تھے لیکن حکومت نے روزاول سے ہی عوام پر ’’مہنگائی کے کلسٹربم‘‘ گرانے شروع کر دئیے ۔ اشیائے خور؎ و نوش کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کرنے لگیں۔ پٹرول ڈیزل ، بجلی ، گیس اور خوردنی تیل کی قیمتوں میں مختصر ترین مدت میں ریکارڈ اضافہ ہوا اور ابھی آئی ایم ایف کے حکم پر اس میں مزید اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو عمران خان پر آئی ایم ایف کی تابعداری کرنے کے دن رات الزامات لگائے جاتے تھے اور آج یہی لوگ حکومت میں آ کر آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چند لمحوں میں عمل درآمد کر کے کہتے ہیں کہ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدے کر رکھے تھے۔ کوئی کہتا ہے کہ عمران خان نے ہمارے لیے بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں۔ کوئی دانشور سری لنکا کی مثالیں دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ہم نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سخت اور مشکل فیصلے کئے ہیں۔ عوام کو مہنگائی کے سمندر میں مزید غوطے دے کر ان پر پٹرول ڈیزل بجلی اور گیس کے بم گرا کر کہتے ہیں کہ یہ سب سابقہ حکومت کی غلط اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ آپ اپوزیشن میں تھے تو اُس وقت جو بلند بانگ دعوے کرتے تھے وہ کہاں گئے؟ 
آپ عالمی مہاجن سے قرضے کی محض چھوٹی سے قسط لینے کیلئے اس کی ہر بات مانتے جا رہے ہیں۔ ٹیکس پرٹیکس لگاتے جا رہے ہیں اور پھر بھی بقول وفاقی وزیر خزانہ اس بجٹ سے آئی ایم ایف خوش نہیں ہے اس لیے 15 روز تک اس میں تبدیلیاں کرینگے۔ موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ سخت فیصلوں کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے لہٰذا عوام کیلئے خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے۔
 ہمارے پالیسی ساز یہ بات بھول جاتے ہیں کہ 9502 ارب روپے کے 2022-23 ء کے وفاقی بجٹ میں 3798 ارب روپے کا خسارہ بھی ہے جس سے یقینا ملک میں مہنگائی بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ عوام کے مسائل اور مشکلات میں بھی مزید اضافہ ہو جائے گا۔ حکومت ایک طرف برآمدات کو 35 ارب ڈالر تک بڑھانے کے دعوے کر رہی ہے تو دوسری طرف بجلی، گیس ، پٹرول، ڈیزل کی قیمتیں ریکارڈ حد تک بڑھا کر ٹیکسوں اور ڈیوٹیز میں اضافہ کر کے موجودہ برآمدات کے گراف پر کاری ضربیں بھی لگا رہی ہے حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے مینوفیکچرنگ انڈسٹری کا عملاً بھٹہ بیٹھ چکا ہے اور ہمارا ملک بیرونی مصنوعات کی منافع بخش منڈی بن چکا ہے۔
 اگر ہم نئے مالی سال کے اس وفاقی بجٹ کا طائرانہ جائزہ لیں تو بات واضح ہوتی ہے کہ زراعت، صنعت ،تجارت، سرمایہ کاری، سائنس و ٹیکنالوجی، ماحولیاتی تحفظ ، انسانی حقوق ، اعلیٰ تعلیم صحت، معدنیات، پٹرولیم ، معدنیات، بجلی، کان کنی جیسے شعبوں کیلئے کم رقوم رکھی گئی ہیں۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے عوام کی فلاح و بہبود اور انہیں زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی طرف بھرپور توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی صوبائی ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو بڑھانے کی کوششیں کی ہیں حالانکہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو بہت مالی، اقتصادی اور انتظامی اختیارات مل چکے ہیں۔ 
یہ بات مشاہدے میں آئی ہے صوبائی حکومتیں دیہی علاقوں کی نسبت شہری علاقوں پر زیادہ فنڈز خرچ کرتی ہیںجس کی وجہ سے دیہاتی عوام آج کے اس ترقیاتی دور کے باوجود 16 ویں صدی جیسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غربت، بے روزگاری، بنیادی سہولتوں کا فقدان اور لوڈشیڈنگ کی وجہ سے گُھپ اندھیرے دیہی عوام کا مقدر بن چکے ہیں۔ نئے وفاقی اور صوبائی بجٹ میں بھی دیہی ترقی اور دیہی عوام کیلئے کوئی ریلیف ہمیں نظر نہیں آتا۔ حالانکہ صوبائی حکومتیں اپنے اپنے بجٹ میں صوبے کے دیہی عوام کیلئے زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کر کے عوام کے مسائل حل کر سکتی اور ان کے قیمتیں ووٹوں کا حقدار بھی بن سکتی ہیں لیکن ایسا انہیں سمجھائے کون؟ بلدیاتی اداروں کو فعال کردار ادا کرنے سے روکنے کے لئے ہماری صوبائی حکومتوں نے ہمیشہ منفی رویے کا مظاہرہ کیا ہے۔ صوبائی حکومتوں نے صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم اور نئے ڈیموں کی تعمیر پر ہمیشہ منفی رویے اپنائے اور علاقائی تعصب کو ہوا دی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے تھا کہ ملک سے اندھیروں کو ختم کرنے اور زرعی ترقی کے لیے ان اہم قومی معاملات اور متنازعہ امور کو طے کرتی۔ وفاقی حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ ملک کے پسماندہ ترین صوبے اور وہاں کے عوام کی ترقی کیلئے دل کھول کر فنڈز مختص کرتی ، سی پیک سمیت گوادر کے بارے میں بلوچستان کے عوام کے تحفظات کو دور کرتی اور لاپتہ افراد کے اہم مسئلے پر بھی واضح پالیسی کا اعلان کرتی۔
 ہمارے منصوبہ سازوں کو اس بات کو ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ بلوچستان کی معدنیات اور قدرتی وسائل سے جڑا ہوا ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے تحت ملک کے تمام پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کا جال پھیلا دے۔ زرعی علاقوں میں زراعت پر مبنی صنعتیں یعنی ایگرو سپیڈ انڈسٹری کو فروغ دے۔ زمین میں چھپے ہوئے تیل، گیس اور معدنی خزانوں کو نکالنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر فنڈز مختص کرے۔ قومی بجٹ کے حوالے سے سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں غیر ملکی قرضے اتارنے، نئی قرضے لینے سے اجتناب کرنے اور زندگی کے ہر شعبے میں بچت کرنے کی عادت ڈالنی ہو گی، ہمیں سائنس ٹیکنالوجی ، تحقیق، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ سمیت تعلیم کے ہر شعبے کو ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت فروغ دینا ہو گا۔ اگر ہمارے حکمران خود بچت کرینگے اور قربانی کا عملی مظاہرہ کرینگے تو انشاء اللہ ہمارا خسارے کا بجٹ چند سالوں میں مثبت ہو جائے گا۔ آزمائش شرط ہے لہٰذا قدم بڑھائیے اور ملک و قوم کیلئے کچھ مثبت کر گزرئیے۔ سیاست کو عبادت اسی وجہ سے ہی کہتے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...