مرزا ہادی رسوا نے جب امراوجان ادا لکھا، اُس وقت ہندستانی سماج اور بالخصوص اودھ میں طوائفوں کی سماجی حیثیت کے بارے میں بحث نہیں شروع ہوئی تھی۔ اِس کے باوجود مرزا رسوانے اُن کی زندگیاں قلم بند کرنے کا جو نشانہ’امراوجان ادا‘ میں طے کیا، وہ شاید وقت سے آگے کی بات تھی۔ حالاں کہ کم از کم اودھ کے ماحول میں اور خاص طور پر شرفا کے گھر آنگن تک طوائفوں کے دخل سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ کوٹھے پر آنے جانے میں صرف عیش کوشی اور بداخلاقی ہی اسباب نہ تھے بلکہ شریف گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیاں تھوڑے تھوڑے وقفے کے لیے یہاں اس لیے بھیجے جاتے تھے کیوں کہ لوگ مجلسی آداب سے واقف ہوجائیں۔ اس سچّائی کے باوجود کیا طوائفیں اَودھ کی سماجی زندگی میں کوئی مساویانہ وجود رکھتی تھیں؟ ہر گز نہیں۔
موضوع کی پیش کش میں مرزا رسوانے اودھ کے ماحول کے اِسی تضاد پر اُنگلی رکھی ہے۔ پورے ناول میں پس منظر کے طور پر لکھنؤ کے بدلنے، لحظہ بہ لحظہ منتشر ہونے اور کسی ایسے راستے کی طرف بڑھنے کے آثار ملتے ہیں جہاں شاید اندھی گلی ہی میسّر آئے۔ کیا اِس پس منظر کو نوابین کے محلوں سے نہیں دکھایا جا سکتا تھا؟ آخر رسوا نے خانم کے کوٹھے کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ اگر اُن کا مقصد اودھ کے روبہ زوال ماحول کی عکاّسی تھا؟ انھی سوالوں میں مرزا رسوا کی وسیع النظری کے مظاہر ہمارے سامنے آتے ہیں۔
مرزا رسوا کا روایتی تعلیم سے الگ سائنس کی جدید تعلیمات اور ریسرچ سے اُن کا سروکار تھا۔ قصّے کا جو دَور ناقدین نے مختلف قرائن سے طے کیا، اُس اعتبار سے یہ کہانی 1857 سے پہلے شروع ہوجاتی
ہے۔ کہنا چاہیے کہ اودھ کی شمع آخری بار اپنی تیز لَو کے ساتھ موجود ہے۔ اگر یہ واقعہ بعد کا ہوتا تو امراو جان ادا کا قصّہ اس قدر اطمینان اور ٹھہراو کے ساتھ آگے نہیں بڑھتا۔ اُتھل پُتھل اور انتشار کے عناصر کافی زیادہ ہوتے لیکن رسواجس وقت اِسے لکھ رہے ہیں، انھیں پتا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ اِس تہذیب کے اجزا بھی زوال کے راستے پر تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ چکے ہیں۔ پورے ناول میں اودھ کی تہذیب کے ضمنی دفاع کے باوجود مرزارسوا نے ایک حقیقت پسندانہ رویّہ اپنا رکھا ہے۔یہ سوال اہم ہے کہ رسوانے زوال کی کہانی کو امراوجان کی زبانی کیوں سنایا۔ وہ چاہتے تو واجد علی شاہ کی آنکھوں سے بھی یہ منظر دیکھ سکتے تھے اور انھیں ہی اِس قصّے کا راوی بنا سکتے تھے لیکن وہ جدید ذہن کے آدمی تھے۔ اُن کے دماغ میں اودھ کا زوال اگر بنیادی استعارہ ہے تو صرف یہی کافی نہیں۔ اودھ کے معاشرے کو جن کے وجود نے رنگ ونور کی شعاعوں سے بھردیا تھا، کیا زوال کے اس لمحے میں انھیں بھول جایا جائے۔اس وقت تک ایسی نصف درجن کتابیں سامنے آچکی ہیں جن میں معاشرہ اودھ کے مخصوصات اور طوائفوں کے سماجی زندگی میں سرگرم وجود کے قصّے موجود ہیں۔ کیا اِن طوائفوں کی زندگی پر زوال کی کوئی پرچھائیں پڑرہی تھی؟ مرزارسوا نے اودھ کے زوال کے ساتھ ساتھ ان کو ٹھوں کے زوال کو بھی اپنے سامنے رکھا۔رسوامنظّم پلاٹ نگاری کے طرف دار تھے حد تو یہ ہے کہ اچھّے خاصے مذہبی اور مقطّع مولوی بھی یہاں حاضر ہیں۔ طوائفوں میں بھی نہ جانے کتنے اندازو اسلوب کی شخصیات یہاں موجود ہیں۔ کسی کا ماضی شاندار رہا ہے تو کسی کا آنے والا دن روشن تر ہوگا۔کسی نے خود سے آنا طے کیا تو کوئی ہے جسے زبردستی اِس ماحول میں پہنچادیا گیا۔ کسی کی طبیعت یہاں لگ گئی ہے اور کوئی ایسا ہے جو اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی رات دن گھُٹ رہا ہے۔ ظاہر ہے، معاشرے کی یہ
رنگا رنگی شاید ہی کسی دوسرے مقام سے ناول نگار دکھا پاتا۔
امراوجان ادا‘ جب لکھا گیا، اُس وقت اردو میں ناول نگاری کا کوئی تنقیدی پیمانہ وضع نہیں ہوا تھا۔ سب اپنے اپنے مزاج اور انداز سے آگے بڑھ رہے تھے مگر مرزا رسوا پلاٹ اور کرداروں کی سطح پر فنّی اعتبار سے چابک دست ہونے کا مکمّل فریضہ ادا کرتے ہیں۔ رسوانے کبھی یہ کوشش نہیں کی کہ ناول کے مختصر پلاٹ کو بے وجہ طول دیا جائے۔ انھوں نے جو پس منظر منتخب کیا تھا، اُس کے آئینے میں وہ چاہتے تو ہزاروں اور چہرے انھیں مل سکتے تھے جن سے ناول مزید پھیل سکتا تھا لیکن ایک ہوش مند ماجرا نگار کے بہ طور مرزارسوا قصّے کی مرکزیت اور اثرآ فرینی کو اوّلیت دینا چاہتے تھے۔ اردو میں اب تک جو ناول یا تمثیلیں لکھی گئی تھیں، اُن میں فنّی سطح پر ایسے فیصلے کرنے کا رجحان ’باغ وبہار‘ کے علاوہ کہیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔
امراوجان ادا ناول کا موضوعاتی اعتبار سے سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ سماج میں عام طور پر جسے بدنام اور غلط کاری کا منبع سمجھا جاتا ہے، اُسے مرزارسوا نے موضوع بنایا۔ رسوا سماج کے اس تضاد کو سمجھتے ہیں جس میں اِن طوائفوں سے اخلاقی اور غیر اخلاقی استفادہ کرنے میں سب کی سرگرمیاں رہتی ہیں لیکن انسانی زندگی اور معاشرتی حقوق کی ترازو پر اپنے برابر تولنے کی ہمّت کسی میں نہیں۔ رسوانے یہ حوصلہ دکھایا اور پورے قصّے کی بنیاد اِسی ماحول اور معاشرت کو بنایا۔ اودھ کے زوال اور انتشار سے اُن کی ہمدردیاں ظاہر ہیں لیکن اِن کو ٹھوں پر بھی زوال کا ایک تیز رفتار حملہ ہے اور اِن کا نظام بھی جلد ہی تِتّربِتّر ہوجائے گا، اِس لیے ناول نگار کمال ہمدردی کے ساتھ اِن طوائفوں کی زندگیوں کے مختلف پہلوؤں کو ابھارتا ہے۔پورے ناول میں انھیں انسانی چہرہ اور حسن وحرکت عطا کر کے رسوا نے اپنی سماجیاتی فکر کو انقلاب آفریں پرواز عطا کی ہے۔