وطن عزیز اس وقت تین بڑے یونٹس قومی زوال کا شکار اور پستی کی جانب گامزن ہیں۔ سیاسی زوال، اخلاقی زوال، معاشی زوال، اس وقت پی ٹی آئی کے کارکنوں اور قیادت کی طرف اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جارہی ہے۔ پی ٹی آئی کو اگرچہ حکومت سے جمہوری طریقے اور احسن طریقے سے رخصت کیا گیا ہے۔ مگر خان صاحب، ان کے کارکنوں ، درباریوں کے نعروں، اور بیانات کی دردآہ جاری ہے۔ جس تنظیم ، گھر، ادارے کے بڑے غیرہ ذمہ دارانہ ردعمل اور اخلاقی پستی کا مظاہرہ کریں گے۔ ان کے ماتحت اور حامی ، اور چھوٹی نسل نو بھی اسی کے نقش قدم پر چلیں گے۔ خان صاحب کے پست ، غیر معیاری، اور گھٹیا گفتار کے انداز وبیان کی نقالی کرتے
ہوئے پی ٹی آئی کے کارکن غلیظ اور ناشائستہ زبان وانداز کا استعمال کرتے ہوئے، ن لیگی، کارکن، قیادت، پیپلز پارٹی، اور اتحادی جماعتیں بھی رد عمل میں پی ٹی آئی قیادت پر گولہ باری کرتی ہیں۔ بعض اوقات بلکہ بسااوقات ن لیگ، اور اتحادی جماعتیں بھی اخلاقی پستی یا سخت رویے اپنانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ عصرحاضر میں پاکستانی سماج کا سیاسی اکھاڑا اخلاقی پستی، زوال، گراوٹ کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ جوکہ لمحہ فکریہ ہے۔ کے پی کے صوبائی حکومت تعمیری اور آئینی ذمہ داریوں کی بجائے خان صاحب کے بے مقصد، ناکام تخریبی، احتجاجوںآلہ کار اور حصہ بنا ہوا ہے۔ اسی طرح ایک صوبائی حکومت آئینی ذمہ داریاں، مفاد عامہ نبھانے کی بجائے وفاق پاکستان کے خلاف اور کمزور کرنے کیلئے استعمال ہورہا ہے۔ کے پی کے کی صوبائی حکومت بلامقصد احتجاجوں اور خان صاحب کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بجائے مفادعامہ ،تعمیری اور اپنی آئینی ذمہ داریوں پر توجہ دیں۔ اس طرح ایک ریاست کے اندر، ایک صوبے کے وسائل جو عوام کا حق ہے۔ عوام اور وفاق پاکستان کو کمزور کرنے کے خلاف استعمال ہورہے ہیں۔ الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے۔ وہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سیاسی جماعتوں بالخصوص پی ٹی آئی قیادت کو، مہذب ، شائستہ انداز، رویہ، اپنانے کی سختی سے تاکید کریں۔ وفاق پاکستان ، سیاسی مذہبی جماعتوں کے کارکنوں اور قیادت کے خلاف زبان درازی، گالیاںبکنے کی ہرگز ہرگز اجازت نہ دیں۔ پی ٹی آئی کی قیادت اور تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کیلئے ایک ضابطہ اخلاق جاری کریں۔ اورکسی بھی سیاسی جماعت کی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی صورت میں نااھلی، قید، بھاری جرمانوں کی سخت ترین سزائیں مقرر کریں۔ خاصکر خان صاحب اور ان کے کارکنوں کے زبانوں کو لگام دیں۔ تاکہ سیاست ، ریاست میں نظم وضبط، رواداری، میانہ روی، اعتدال، اصول پرستی، اور اعلی اخلاقی اوصاف کو فروغ دیا جائے اور عملی نمونہ پیش کیا جائے۔ ساڑھے تین سال میں سیاست میں زبان درازی، اور بدزبانی کا کلچر خان صاحب نے متعارف کراکر سیاست کو اعلی سماجی اقدار کے حامل معاشرتی باسیوں اور شریفوں کے لئے شجر ممنوعہ کردیا ہیں۔ ۲۔ پاک سماج کو گمراہ کرنے والا دوسرا بڑا ناسور اخلاقی زوال ہے۔ لوگوں ، خواص، عوام، تو کیا اچھا خاصا، پڑھا لکھا طبقہ اخلاقی پستی اور زوال کا شکار ہیں۔ مساجد ، بازاروں، عوامی مقامات، دفاتر، سماجی روابط کے محافل، اجتماعات میں کسی بھی انفرادی یا اجتماعی غلطی پر تنازعات ، تنائو، تصادم، ٹکرائو، جنم لیتے ہیں۔ پاکستانی قوم میں برداشت کا مادہ مفقود ہوچکا ہے۔ کوئی خاص یا عام شہری اپنی دانستہ ،نادانستہ غلطی تسلیم کرنے اور اسپر نادم اور معذرت کا قائل اور روادار نہیں ہے ۔
نسل نو میں اخلاقی عناصر، آداب، تمیز داری، تقریباً ختم ہوچکے ۔ مثبت انسانی رویے۔ سماجی معاشرت اقدار ریاست /سماج کو معطر کرنے اور اسے امن، خوشحالی، توازن، اطمینان، کا پرسکون گہوارہ بناتا ہے ۔ علماء کرام، واعظین، داعی حضرات، مدارس میں درس دینے والے علماء کرام اعلیٰ سماجی، معاشرتی اور اخلاقی معیار کو اپنا موضوع بحث بنائیں۔ ذرائع ابلاغ، اور نجی سرکاری الیکٹرانک میڈیا، اشتہارات ، باہمی سماجی مباحثوں میں اخلاقیات پر مبنی پروگرامات شروع کریں۔ اصلاحی ڈرامے، دستاویزی پروگرامات بشمول مختلف ذرائع سے سماج کو مہذب ، تمیز دار، اور متوازن بنانے کیلئے اپنا کردار ادا کریں۔معیشت زوال ، عدم توازن کا شکار ہے۔ اس وقت پاکستان 100ارب ڈالر سے زائد مقروض ہے۔ پچھلے حکومت نے تاریخ کا ریکارڈ قرضہ لیا۔ جس سے معیشت بہتر ہونے کی بجائے مزید ابتر اور دگرگوں صورتحال سے دوچار ہوا۔ سودی معیشت قومی سطح پر سرکاری اور عوامی سطح پر کفایت شعاری سے گریز اور قومی قدرتی اور غیر قدرتی وسائل کے نامناسب استعمال ، فضول خرچی، بدانتظامی نے معیشت کو تباہ وبرباد کیا۔ قرض اور سود کی لعنت نے بے سکونی، بے اطمینانی، میں اضافہ کیاہے۔ ذلت ، خواری، غربت، بے روز گاری، توانائی کا شدید بحران، سماجی معاشی شدید عدم توازن، سودی نظام اور قرضوں کے بلامقصد ، بلاجواز، کے حصول کا بھیانک خطرناک نتیجہ ہے۔ اورپر سے خشک سالی، جنگلات میں کمی، ماحول میں درجہ حرارت، آلودگی، غلاظت میں اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ اگر قوم اور حکومت غور کریں۔ تو معاشی زوال بربادی، بے سکونی ، مہنگائی، معاشی عدم توازن کے ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم بحیثیت قوم پانی کے قدرتی ذخائر کو محفوظ کرنے کا عوامی وژن پیدا کرنے اور اسپر خود بھی عمل کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔ درخت لگانے، توانائی کے نئے ذرائع لگانے سے بھی گریز کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ کیا بحیثیت پاکستانی شہری اور قوم کے یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری نہیں ہے ؟کہ اپنے قومی وسائل ، قدرتی، غیر قدرتی، املاک کو محفوظ رکھیں۔ ان کا بے جا ، بلامقصد، ضیاع روکے، کفایت شعاری، کی پالیسی اپنائیں۔ اپنے مجموعی بداعمالیوں ، گناہوں کی اللہ سے معافی مانگیں تاکہ ملک ، سماج، ریاست پر انسانی محنت، فیوض وبرکات کیساتھ رحمت الٰہی کا بھی نزول ہوجائیں۔