مبارک ہو قضیہ تمام ہوا۔’’ڈان‘‘ اخبار کے برسوں سے واشنگٹن میں مقیم نامہ نگار انور اقبال نے خبر دی ہے کہ پیر کی شام امریکی صدر جوبائیڈن نے بالآخر ان کے ملک میں تعینات ہوئے پاکستانی سفیر مسعود خان صاحب کو وائٹ ہائوس بلالیا۔ ان کے ساتھ تصویر بھی کھنچوائی اور یوں مسعود خان واشنگٹن میں ہمارے سفارتی آداب کے عین مطابق تعینات ہوئے سفیر کی حیثیت اختیار کرگئے۔
پیر کے روز چھپے کالم میں خاکسار نے امریکہ کے پاکستان کے لئے نامزد ہوئے سفیر ڈونلڈ بلوم کی ہمارے ایوان صدر جاکر کاغذات نامزدگی پیش کرنے کی تقریب میں تاخیر کا ذکر کیا تھا۔مجھے شبہ تھا کہ غالباََ صدر مملکت عارف علوی صاحب اس ملک کے نمائندے کو انگریزی محاورے والا ’’ٹھنڈا کاندھا(Cold Shoulder)‘‘دکھارہے ہیں جس نے ’’سازش کے ذریعے ان کے قائد عمران خان صاحب کی حکومت کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد کے ہاتھوں فارغ کروایا تھا۔
وہ کالم چھپ گیا تو ہماری وزارت خارجہ کے امور کی بابت رپورٹنگ کو مامور عیسیٰ نقوی نے مجھے یاد دلایا کہ مسعود خان صاحب کو ابھی تک کاغذات نامزدگی پیش کرنے کے لئے وائٹ ہائوس مدعو نہیں کیا گیا ہے۔ایسا کرتے ہوئے موصوف نے Bilateralوالی اصطلاح بھی استعمال کی۔’’باہمی‘‘ اس کا اردو مترادف ہے۔یہ دو خودمختارممالک کے مابین ’’برابری‘‘ کا تقاضہ کرتا ہے۔خارجہ امور کی رپورٹنگ کرتے ہوئے عیسیٰ خود بھی سفارت کاروں کی طرح ’’محتاط‘‘ ہوچکا ہے۔ناپ تول کر بولتا ہے۔ میں البتہ لاہور کی گلیوں میں پیدا ہوکر جوان ہواپھکڑباز رہنے تک ہی محدود ہوں۔اپنے تئیں فوراََ طے کرلیا کہ امریکہ نے جو سفیر اسلام آباد بھیجا ہے اسے کاغذات نامزدگی پیش کرنے کی تقریب کے لئے مدعو نہ کرتے ہوئے یاد دلایا جارہا ہے کہ ہمارے مسعود خان صاحب کو بھی وائٹ ہائوس کی جانب سے ایسی تقریب کے لئے بلایا نہیں گیا ہے۔پھکڑپن کی روانی میں کالم کے اختتام پر اس خیال کا اظہار بھی کیا کہ امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اگر ہمارے صدر کی جانب سے مدعو ہونا چاہ رہے ہیں تو اپنے صدر سے درخواست کریں کہ وہ فی الفور مسعود خان صاحب کو وائٹ ہائوس مدعو کریں۔پیر کی شام وہ دعوت آہی گئی۔
یہ لکھنے کے بعد خیال آیا کہ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ پیر کی شام مسعود خان صاحب کو صدر بائیڈن کے ساتھ تصویر کھنچوانے کے لئے نظر بظاہر جس عجلت میں بلایا گیا میں اس کا کریڈٹ اپنے کالم کو دے رہا ہوں۔یقین مانیں ساری عمر صحافت کی نذر کردینے کے باوجود مجھے ایک لمحہ کو بھی یہ گماں لاحق نہیں رہا کہ ’’وڈے لوگ‘‘ مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کے لکھے الفاظ کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔اردو ویسے بھی دیسی اور عالمی اشرافیہ کی زبان نہیں ہے۔اخبارات پڑھنے کے بھی ’’وڈے لوگ‘‘ اب عادی نہیں رہے۔سوشل میڈیا ہی سے ’’باخبر‘‘ رہنے کو رجوع کرتے ہیں۔میرا کالم چھپنے سے غالباََ بہت دن قبل ہی یہ طے ہوچکا ہوگا کہ گزرے پیر کی شام مسعود خان صاحب وائٹ ہائوس جاکر صدر بائیڈن کے ساتھ تصویر کھنچوائیں گے۔میں اس کی بابت قطعاََ بے خبر تھا۔محض اتفاق ہے کہ اس معاملے کی بابت لکھا کالم چھپا تو عین اسی شام مسعود خان صاحب کی امریکی صدر کے ساتھ تصویر بنوانے والی ملاقات ہوگئی۔
مسعود خان صاحب کو عمران حکومت نے امریکہ میں ہمارا سفیر تعینات کیا تھا۔وہ ہماری وزارت خارجہ کے سینئر ترین افسر رہے ہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد آزادکشمیر کے صدر منتخب ہوگئے تھے۔ان دنوں نواز شریف کی حکومت تھی۔آزادکشمیر کے صدر کی حیثیت میں پانچ سالہ آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد فارغ ہوئے تو عمران خان صاحب نے انہیں واشنگٹن میں نمائندگی کے لئے چن لیا۔ ان کا انتخاب تکنیکی اعتبار سے ’’سیاسی تقرری‘‘ تھی۔ایسی تقرری کے ساتھ عموماََ یہ ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ کرنے والی سیاسی حکومت فارغ ہوجائے تو اس کی جانب سے تعینات ہوئے سفارت کار ازخود مستعفی ہوجاتے ہیں۔استعفیٰ نہ بھی بھجوائیں تو انتظار کرتے ہیں کہ ان کا تقرر کرنے والی حکومت کی جگہ جو لوگ آئے ہیں وہ انہیں برقرار رکھنا چاہ رہے ہیں یا نہیں۔ عمران خان صاحب کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کروانے کے بعد وزیر اعظم بنے شہبازشریف نے یقینا مسعود خان صاحب کو ’’ٹکے رہو فکر کی کوئی بات نہیں‘‘ والا پیغام بھجوادیا ہوگا۔ اگرچہ میرا جھکی ذہن یہ سوچنے کو بھی مچل رہا ہے کہ مسعود خان صاحب کی واشنگٹن میں بطور پاکستانی سفیر تعیناتی کا فیصلہ عمران حکومت نے نہیں کسی اور نے کیا ہوگا۔جہاں سے خان صاحب کا نام آیا تھا وہیں سے شہباز شریف صاحب کو یہ پیغام بھی مل گیا ہوگا کہ مسعود خان صاحب کے ساتھ ہی گزارہ کریں۔
شہباز صاحب ایسی تجاویز کی بابت اپنے بڑے بھائی کی طرح خواہ مخواہ کے پنگے نہیں لیتے۔اسی باعث ان کی زیر قیادت 2008سے 2018تک قائم رہی پنجاب حکومت کو مستقل استحکام میسر رہا۔ نواز شریف کو یہ سہولت 1990،1997اور 2013کے برسوں میں وزیر اعظم منتخب ہوجانے کے باوجود میسر نہ ہوپائی۔ 2016کے برس تو وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی سرکاری اور ریاستی اہلکاروں پر مشتمل کمیٹی کے روبرو پیش ہوکر اپنی آمدن اور جائیداد کا حساب دیتے رہے۔ یہ کاوش مگر ان کے کام نہ آئی۔بالٓاخر ایک ’’اقامہ‘‘ دریافت ہوگیا اور نواز شریف اس کی وجہ سے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل قرار پائے۔ بعدازاں انہیں احتساب عدالت نے ایک مقدمے میں سزا سناکر جیل بھی بھجوادیا۔ جیل میں ان کی صحت بگڑی تو ہنگامی بنیادوں پر انہیں وہاں سے نکال کر علاج کے لئے لندن بھیجنے کا فیصلہ ہوا۔ ان کی روانگی کی اجازت عمران حکومت کی وفاقی کابینہ نے طویل مشاورت کے بعد فراہم کی تھی۔ ایسی کشادہ دلی دکھانے کے باوجود عمران حکومت کے وزراء حقارت ورعونت سے نواز شریف کو ’’بھگوڑا‘‘ پکارتے ہیں۔وہ اب لندن ہی میں مقیم ہیں۔تاریخ کا جبر یہ بھی ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کے وطن عزیز کا وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی پاکستان لوٹنا نہیں چا ہ رہے۔ہمارے کسی ’’نجی چینل‘‘پر بھی ان کی گفتگو نشر نہیں ہوسکتی۔ ’’ووٹ کو عزت‘‘مل چکی ہے۔
واشنگٹن کے علاوہ نیویارک میںاقوام متحدہ میں مستقل نمائندگی کے لئے ہمارے مندوب منیر اکرم صاحب بھی ہیں۔وہ بہت دھانسو سفارت کار شمار ہوتے ہیں۔جنرل مشرف کے دور میں تاہم ایک ناخوشگوار واقعہ ہوگیا تھا جس کی تفصیلات بیان کرنے کا مجھ میں حوصلہ نہیں۔منیر اکرم صاحب کو اس کی وجہ سے تاہم عہدے سے فارغ ہونا پڑا۔2008میں جب آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے تو منیر اکرم صاحب کے خیر خواہوں نے ان کی واپسی کی راہ بنانا چاہی۔زرداری صاحب نے تاہم حسین ہارون کا انتخاب کرلیا تھا۔
زرداری صاحب کے بعد نواز حکومت آئی تو وہ بھی منیر اکرم صاحب کی صلاحیتوں سے استفادہ نہ کرپائی۔ منیر صاحب جب کسی سفارتی عہدے پر تعینات نہیں ہوتے تو انگریزی میں پاکستان کے ایک جید اخبار کے لئے کالم لکھتے ہیں۔ان کے ایک کالم کی بدولت ہم جاہلوں کو علم ہوا کہ نواز شریف جب بطور وزیر اعظم امریکی صدر اوبامہ سے ملنے گئے تھے تو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بابت ڈانٹ ڈپٹ سن کر خامو ش رہے۔ اوبامہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ’’قومی مفادات‘‘ کا دفاع نہ کرپائے۔
وہ کالم عمران خان صاحب کو یاد رہا ہوگا۔اسی باعث اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے ذریعے ’’مسلم اُمہ کی وکالت‘‘ کرنے نیویارک گئے تو وطن لوٹنے کے لئے جہازمیں بیٹھتے ہی ڈاکٹر ملیحہ لودھی صاحبہ کو اقوام متحدہ میں پاکستان کی ’’مستقل مندوب‘‘کے منصب سے فارغ کردیا۔منیر اکرم ان کی جگہ تعینات کردئیے گئے۔ شہباز حکومت بھی ان کی بے پناہ صلاحیتوں پر انحصار کرنے کو مجبور ہے۔ امید ہے اگر موقعہ ملا تو شہباز شریف صاحب امریکی صدرجوبائیڈن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستان کے قومی مفاد کا دفاع کرتے ہوئے منیر اکرم صاحب کا جی خوش کردیں گے۔