اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) تحقیقاتی اداروں میں حکومتی مداخلت سے متعلق لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ ہم قانون کی حاکمیت چاہتے ہیں، یہ سوال اہم ہے کہ مقتدر لوگوں نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے فائدہ اٹھایا، جو لوگ خود بینیفشریز ہیں وہ رولز میں ترمیم کیسے کر سکتے ہیں، جن لوگوں کے مقدمات زیر التوا ہیں ان کیلئے مروجہ طریقہ کار پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، موجودہ حالات منفرد نوعیت کے ہیں، پارلیمنٹ میں اکثریتی جماعت پارلیمنٹ سے باہر جاچکی ہے، ملک اس وقت معاشی بحران کا شکار ہے، ایگزیکٹو کو اپنے اختیارات آئین و قانون کی روشنی میں استعمال کرنا ہونگے، کسی بھی تحقیقاتی ادارے، ایجنسی اور ریاستی ادارے کو اپنی حدود سے تجاوز نہیں کرنے دیں گے، یکطرفہ پارلیمان سے قانون سازی بھی قانونی تقاضوں کے مطابق ہونی چاہیے، یہ کسی کیلئے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ہے، نظر رکھیں گے کوئی ادارہ اپنی حد سے تجاوز نہ کرے، ایسا حکم نہیں دینا چاہتے جس سے حکومت کو مشکلات ہوں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے بعد اٹارنی جنرل آفس میں تمام سٹیک ہولڈرز کا اجلاس ہوا، جبکہ ای سی ایل رولز سے متعلق کابینہ کمیٹی کا بھی گزشتہ روز اجلاس ہوا، اجلاس میں تمام سوالات اور آبزرویشنز کو سامنے رکھا گیا، کابینہ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا کہا ہے، اٹارنی جنرل آفس نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے متعلق ایس او پیز بنا کر تمام اداروں کو بھجوا دی ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر سوال اٹھایا کہ رولز میں جو ترامیم ہوچکی ہے یا جو نام ای سی ایل سے نکل گئے انکا کیا ہوگا، کابینہ کمیٹی خود ہی قانون بناتی ہے اور خود ہی تشریح بھی کرتی ہے، بنے ہیں آپ ہی مدعی بھی منصف بھی، کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں، عبوری انتظام میں بھی کرپشن کے ملزم نیب کی اجازت سے ہی بیرون ملک جائیں گے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل بتایا کہ ای سی ایل سے نکالے گئے تمام ناموں کا الگ الگ کر کے دوبارہ سے جائزہ لیا جائے گا، نیب اور ایف آئی اے سے مشاورت کے بعد رولز بنائے جائیں گے، ای سی ایل میں شامل کسی وزیر نے ترمیم کی منظوری نہیں دی، جسٹس مظاہر نقوی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا آپ کی بات ریکارڈ کے مطابق ہے؟۔ سعد رفیق کی منظوری ریکارڈ کا حصہ ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سعد رفیق نے کابینہ کمیٹی میں نظرثانی درخواست دائر کی تھی، ترمیم کا براہ راست سعد رفیق کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، سرکولیشن سمری میں رائے نہ بھی آئے تو اسے منظوری سمجھا جاتا ہے، مفتاح اسماعیل ای سی ایل ترمیم کے وقت بیرون ملک تھے، مفتاح اسماعیل نے ترمیم پر کوئی رائے نہیں دی تھی۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ سمجھ نہیں آرہی حکومت کرنا کیا چاہتی ہے، لگتا ہے حکومت بہت کمزور وکٹ پر کھڑی ہے، واضح بات کے بجائے ہمیشہ ادھر ادھر کی سنائی جاتی ہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سسٹم چلنے دینے کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہوگا، جس نے سرکاری کام سے باہر جانا ہے اسے اجازت ہونی چاہیے۔ ڈی جی ایف آئی اے نے 42 ہائی پروفائل کیسز کا ڈیجیٹل ریکارڈ سیل لفافے میں عدالت عظمی میں جمع کراتے ہوئے بتایا کہ تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ پی ڈی ایف فائلز کی صورت میں یو ایس بی میں شامل کیا گیا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے ہائی پروفائل کیسز کا ڈیجیٹل ریکارڈ جمع کرانے کیلئے دو ہفتوں کی مہلت طلب کی۔ جسے عدالت نے منظور کر لیا گیا۔ اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یقین دہانی کراتا ہوں کہ بیرون ملک جانے سے پہلے متعلقہ شخص وزارت داخلہ سے اجازت لے گا، جب تک حکومت قانون سازی نہیں کر لیتی یہ عبوری طریقہ کار رائج رہے گا، چند دن میں رولز کے حوالے سے باضابطہ طریقہ کار وضع ہوجائے گا، ترمیم تک کوئی ملزم بغیر اجازت بیرون ملک نہیں جا سکے گا، سپریم کورٹ نے ای سی ایل میں شامل افراد کو بیرون ملک سفر کیلئے وزارت داخلہ سے اجازت لینے کا حکم دینے سمیت کابینہ کمیٹی میٹنگ کے منٹس طلب کرتے ہوئے سماعت 27 جون تک ملتوی کر دی ہے۔
کسی کو حد سے تجاوز نہیں کرنے دینگے مقتدر لوگوں نے ای سی ایل رولز میں ترمیم سے فائدہ اٹھایا چیف جسٹس
Jun 15, 2022