اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + نیٹ نیوز) وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ اگلے سال قرضوں پر سود کی ادائیگی پر 4 ہزار ارب روپے خرچ ہوں گے، 2018ء میں قرضوں پر سود کی ادائیگی کا بل 1499 روپے تھا، عمران خان حکومت نے قرضوں میں 79 فیصد اضافہ کیا، اس سال 1100 ارب کی سبسڈی وزارت پاور کو دی گئی، پاور سیکٹر ٹھیک نہ کیا تو یہ ملکی معیشت لے ڈوبے گا۔ اسلام آباد میں بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا آئندہ سال ترقیاتی منصوبوں پر 800 ارب خرچ ہوں گے۔ ہمارا بلنگ اور فیصلہ سازی کا نظام بہت فرسودہ ہے، پچھلے سال بجلی کی قیمتیں بڑھی تھیں اس کا نوٹیفیکیشن اب آیا ہے، مجھے خود بجلی کا نظام سمجھنے میں مشکل پیش آئی۔ حکومت بجلی پر لاگت 300 ڈالر خرچ اور بل 50 ڈالر وصول کررہی ہے، 250 ڈالر سبسڈی میں جارہے ہیں، لوڈ شیڈنگ کی ایک وجہ ایندھن کے پیسے نہ ہونا ہے، ہم 1950ء کے پاور پلانٹ فرنس آئل پر چلا رہے ہیں، اس بجٹ کو زیادہ تر سراہا گیا ہے، بجٹ میں بہت ساری چیزیں (مشکل فیصلے) مجبوراً کرنا پڑتی ہیں، جب میں نے یہ کہا تو شوکت ترین نے کہا 80 فیصد نہیں 76 فیصد لیا ہے۔ گزشتہ حکومت نے ریکارڈ قرضے لئے، بجلی کی قیمتیں گذشتہ برس بڑھائی گئیں، نوٹیفکیشن اب آیا ہے۔ سابق حکومت نے ریکارڈ قرضے لیے، رواں سال ترقیاتی بجٹ 550 ارب روپے ہے، اگلے سال کیلئے ترقیاتی بجٹ 800 ارب روپے رکھا گیا ہے، گیس کے شعبے کا گردشی قرضہ 1500 ارب روپے تک بڑھ چکا ہے۔ نیپرا کا سسٹم کافی پیچیدہ ہے، ایک گھنٹہ لگا سمجھنے میں کہ کیسے بِلنگ کا سسٹم کام کرتا ہے، پاور سیکٹر کو اگر نہیں سدھاریں گے تو یہ ملکی معیشت کو لے ڈوبے گا۔ وزیر مملکت خزانہ عائشہ غوث پاشا نے نیشنل بجٹ کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اس قسم کا بجٹ ملک کے استحکام کیلئے ضروری تھا۔ آئی ایم ایف کو واپس آن بورڈ لینا ضروری تھا۔ پچھلی حکومت کی جانب سے انرجی پر پٹرولیم لیوی کی شرط کو توڑا گیا۔ بجلی کے نرخ میں اضافہ‘ کوئی سبسڈی نہ دینے کی شرائط کو بھی توڑا گیا۔ پرانی حکومت کے کئے معاہدوں کو پورا کر رہے ہیں۔ ہم چادر سے زیادہ پاؤں پھیلاتے رہے ہیں۔ اب ہم لوگوں کے پاس مانگنے جائیں گے تو کوئی ملک پہلے جیسا رسپانس نہیں دے گا۔ آئی ایم ایف بھی کہہ رہا ہے آپ تو پالیسی سے انحراف کر دیتے ہیں۔ اب ہمیں مشکل فیصلے کرنے ہیں۔ معیشت کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہئے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے نہیں جچتا کہ اپنی سیاست کیلئے ملک کو نیچے لے جائے۔
مفتاح