ایک بوتل خون عطیے سے 3جانیں بچائی جا سکتی ہیں،ڈاکٹر ثاقب انصاری


کراچی (نیوز رپورٹر)  ورلڈ بلڈ ڈونر ڈے کے موقع پر عمیر ثنا فانڈیشن کے تحت کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج  میں بلڈ ڈونیشن کیمپ کا انعقاد کیا گیا،جس میں کالج کے طلبہ و طالبات ،اساتذہ  اور اسٹاف نے  بڑی تعداد میں تھیلے سیمیا کے بچوں کے لییاپنے خون کے عطیات دیئے۔معروف ماہرِ امراض خون و عمیر ثنا فانڈیشن کے روحِ رواں ڈاکٹر ثاقب انصاری،کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کی پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر نرگس انجم،کمیونٹی میڈیسن کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر فرحت علی جعفری،فیکلٹی آف پیتھالوجی کی پروفیسر ڈاکٹر گلنار اور دیگر نے شرکا سے خطاب کیا۔اس موقع پر پروفیسرڈاکٹر نرگس انجم نے ڈاکٹر ثاقب انصاری کو گلدستہ جب کہ ڈاکٹر ثاقب انصاری نے انہیں شیلڈ پیش کی۔ بلڈ ڈونیشن  کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ثاقب انصاری نے کہا کہ ہمارے یہاں دس سے بیس  فیصد  خون ہی رضاکارانہ عطیہ کیا جاتا ہے،جو  حوصلہ افزا صورتحال نہیں،ہم لوگ اسی وقت خون عطیہ کرتے ہیں جب کسی کو ہنگامی طور پر اس کی ضرورت پڑتی ہے،انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال پانچ ہزار بچے تھیلے سیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں ان بچوں کی زندگیوں کو برقرار رکھنے کے لیے  ہر پندرہ سے بیس دن بعد خون کی ضرورت پیش آتی ہے اور خون کسی فیکٹری میں تیار نہیں ہوتا، نوجوانوں اور زندگی کے مختلف طبقات کی جانب سے عطیہ کیا جانے والا خون ان بچوں کو لگایا جاتا ہے.انہوں نے کہا ایک بوتل خون کے عطیے سے تین جانیں بچائی جا سکتی ہیں،ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل بالخصول یونیورسٹیز اور کالجز میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات آگے بڑھیں اور اپنے خون کے عطیات دیں تاکہ خون کی ضرورت پوری کی جاسکے۔پروفیسر ڈاکٹر نرگس انجم نے کالج میں بلڈ ڈونیشن کیمپ کے انعقاد پر عمیر ثنا فانڈیشن  کا شکریہ ادا کیا ہے اور بلڈ ڈونیشن  اور تھیلے سیمیا کے خاتمے اور آگاہی کے لیے اپنے ہر ممکن تعان کی یقین دہانی کرائی،انہوں نے کہا کہ مصیبت زدہ افراد بالخصوص وہ افراد اور بچے جنہیں خون کی اشد ضرورت ہے انہیں خون کی فراہمی خدمتِ انسانیت کی بہترین مثال ہے،انہوں نے طلبہ و طالبات سے خون عطیہ کرنے کی بھی اپیل کی۔

ای پیپر دی نیشن