از خود نوٹس کا دائرہ کم کرنا ہے تو موسٹ ویلکم ، آئینی ترمیم سے کریں : چیف جسٹس 


اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ ہمارا ملک اس وقت ٹرانزیشن کے مرحلے میں ہے، اس صورتحال سے نمٹنا سیکھیں۔ ہم سب کو شکایت کے بجائے حوصلہ، صبر سے کام لینا چاہیے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ بنچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس منیب اختر اور جسٹس اعجازالاحسن شامل ہیں۔ پی ٹی آئی وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلہ میں کہا گیا عدالت کو اپنا پرانا فیصلہ ری اوپن کرنے میں بہت ہچکچاہٹ اور احتیاط برتنی چاہیے۔ فیصلہ میں سپریم کورٹ کے فیصلوں کے حتمی ہونے کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جانب سے اب تک کے تین پوائنٹ اٹھائے گئے ہیں، فیصلے میں وزڈم ہے، وہ قانونی عمل کو حتمی بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بھارت میں حق سماعت نہ ملے تو نظرثانی درخواست دائر ہوتی ہے، ہمارے ہاں فیصلہ غیر قانونی ہو تو نظرثانی ہو جاتی ہے۔ ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ نظرثانی قانون کو وسیع کرسکتی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین میں نظرثانی کے دائرہ اختیار کو بالکل واضح لکھا گیا ہے۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میرا کیس ہی یہی ہے کہ ریویو آف ججمنٹ اینڈ آرڈر ایکٹ خلافِ آئین ہے۔ جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فوجداری ریویو میں صرف نقص دور کیا جاتا ہے جبکہ سول میں سکوپ بڑا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی کے آئینی تقاضے ہیں مگر اسے اپیل میں نہیں بدلا جاسکتا، اگر نظرثانی میں اپیل کا حق دینا ہے تو آئینی ترمیم درکار ہوگی، نظرثانی کیس میں صرف نقائص کا جائزہ لیا جاتا ہے، نئے شواہد بھی پیش نہیں ہوسکتے۔ وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ آئین کہتا ہے شیڈول فور کے مطابق ہی قانون بن سکتا ہے، پارلیمنٹ ہائیکورٹ سے متعلق قانون بناسکتی ہے مگر سپریم کورٹ سے متعلق نہیں، آئین میں سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نظرثانی میں اپیل کا حق دینا آرٹیکل 184/3 کے اختیارات میں کمی لانا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے مطابق وہ دراصل 184(3) کے اثر کو کم کررہے ہیں، آپ کہہ رہے ہیں 184(3) کا دائرہ کم کریں موسٹ ویلکم لیکن آئینی ترمیم سے کریں؟۔ چیف جسٹس نے کہا آرٹیکل 184(3) میں اپیل کے حق کیلئے آئینی ترمیم کو خوش آمدید کہیں گے اور آئینی اختیار کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی تبدیل کیا جا سکتا ہے جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ جی ہم یہی کہہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی میں آپ کو دکھانا ہوگا کون سا نقص فیصلہ میں موجود ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس قانون کو صرف 184(3) تک محدود کیا گیا ہے، ایک محدود مقصد کے لیے ریویو اپیل بنا دیا گیا، کل پارلیمنٹ ایک اور قانون بناتی ہے کہ ایک نہیں دو اپیلیں ہوا کریں گی تو کیا ہو سکتا ہے؟۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اب تو ایکٹ کے آنے سے پہلے کے فیصلوں پر بھی نظرثانی قانون لاگو ہو گا۔ ایکٹ کے بعد از خود نوٹس والے مقدمات پر بھی ایکٹ لاگو ہوگا، 184/3 کے تمام مقدمات پر ایکٹ لاگو ہوا تو سب کیس دوبارہ کھل جائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نظرثانی قانون سے متعلق کئی اہم سوالات سامنے آئے جن کو دیکھیں گے۔ عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد اٹارنی جنرل سے آج دلائل طلب کرتے ہوئے درخواستوں پر سماعت آج (جمعرات) تک ملتوی کردی۔ ریاض حنیف راہی نے کہا کہ میں بیرسٹر علی ظفر کے دلائل ہی اپنا لیتا ہوں، اپیل اور نظرثانی میں ایک فرق ہوتا ہے، ریاض حنیف راہی کی جانب سے خوشنودی اور دائرہ اختیار جیسی اصطلاحات کے استعمال پر چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بے ادبی سی باتیں یہاں نہ کریں کہیں اور کریں۔ چیف جسٹس نے ریاض حنیف راہی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو کوئی مسئلہ ہے تو میرے پاس آ جائیں، ہمارا ملک اس وقت ٹرانزیشن کے مرحلے میں ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنا سیکھیں۔ ہم سب کو شکایت کے بجائے حوصلہ، صبر سے کام لینا چاہیے۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ہمارا ملک اس وقت ایک مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے۔ معاشی حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔ ہم سب کو تبدیل ہوتے ملکی حالات کا بہادری اور تحمل سے مقابلہ کرنا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن